اس کالم کو ایک آرام دہ اتوار کی صبح پڑھتے ہوئے شاید آپ کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ آج سے 100 برس قبل 11 نومبر 1918 کو پاکستانی وقت کے مطابق شام کے چار بجے پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تھا۔ آج ہی کے روز عالمی طاقتوں کے مابین جنگ بندی کیلئے ایک عارضی صلح نامہ پر دستخط کیے گئے اور یہ بعد میں صلح نامہ ورسائے کے معاہدے کو جنم دینے کا مؤجب بنا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور، پنجاب اور برصغیر کیلئے یہ معاہدہ کیا اہمیت رکھتا تھا؟ چونکہ حقائق کے بارے میں نئی جانکاری پوری دنیا میں صحافیوں اور تاریخ دانوں کو بہت سے حقائق سے روشناس کروا رہی ہے، اس لئے اب اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ برصفیر اور بالخصوص پنجابی فوج کے بنا پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج فتوحات نہیں حاصل کر سکتی تھیں۔ تو پھر اس سرزمین جسے آج پاکستان کہا جاتا ہے، کا ان جنگوں میں کیا حصہ تھا؟
قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برطانوی زیر تسلط انڈیا سے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کیلئے 13 لاکھ سے زیادہ فوجی بھیجے گئے جن میں سے نصف سے زائد لڑنے والے فوجیوں کی مدد پر معمور تھے اور ان کا کام مورچوں اور سرنگوں کا کھوج لگانا اور خندقیں کھودنا تھا۔ باقی نصف تعداد جو جنگ میں مشغول تھی اس میں سے 74،187 فوجی لڑائی کے دوران ایپرس، سومے اور فرانس، بیلجئم، گیلی پولی کے مختلف جنگی محاذوں پر مارے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے گاؤں چھوڑ کر جنگ پر جانے والے ہر 12 میں سے ایک سپاہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ان میں نصف سے زائد تعداد پنجابیوں کی تھی اور مسلمان پنجابیوں کی تعداد ان میں سب سے زیادہ تھی۔ اس لئے خود ان کے اپنے حساب سے بھی ان کی اموات کی شرح بھی بہت زیادہ تھیں کیونکہ وہ اصلی جنگجو سپاہی تھے۔ تمام قومیتوں اور اقوام جن کے جوان محاذ پر موجود تھے، ان میں پنجابی مسلمانوں کی اموات کی شرح دیگر اقوام سے کئی گنا زیادہ بنتی تھی۔ ہمارے سامراجی آقاؤں نے "کینن فوڈر" (لقمہ جنگ) کی اصطلاح کا استعمال کیا تھا جو کہ میدان جنگ کی حقیقت سے مستعار لی گئی تھی۔ جب سپاہیوں کو خندقیں عبور کر کے جرمن افواج کی مشین گنوں کی اندھا دھند فائرنگ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ خالی اور بھیگے میدانوں کے گرد برقی تاریں لپٹی ہوا کرتی تھیں اور ہمارے سپاہی کسی چارہ کاٹنے والی مشین کے سامنے چارہ بن کر کٹتے رہے۔
اس حقیقت کو چھپانے کیلئے برطانوی سامراج نے ایک اصطلاح متعارف کروائ کہ پنجابی "ایک بہادر اور جنگجوقوم (Martial Race)" ہے۔
جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو برطانوی سامراج نے پنجابیوں کو پیسوں اور تمغوں سے نوازا تاکہ وہ سامراج ہی کے گن گاتے رہیں۔ یہ دراصل سامراج کی دورانِ جنگ پنجابی سپاہیوں کے استحصال اور اپنی خطاؤں پر پردہ ڈالنے کی ایک کاوش تھی۔ انہی کوششوں میں سے ایک مشاعروں کا انعقاد تھا۔ پنجابی شعرا سے پیسوں کے عوض پورے پنجاب میں گھوم کر پنجابی سپاہیوں کی بہادری کے قصے اور ان کے عقلمند برطانوی فوجی افسران کے قصیدے پڑھنے کا کام لیا گیا۔ انہی مشاعروں میں سے ایک مشاعرہ علامہ اقبال کی صدارت میں بھی منعقد ہوا، جنہیں جنگ کے دو سال بعد سر کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ لیکن میں یہاں بتاتا چلوں کہ انہیں یہ اعزاز برٹش انڈیا کا سب سے اچھا شاعر ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔
میرا جنگ عظیم اول سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں 70 کی دہائی کے شروع میں اپنے دوست اسد رحمان کے ساتھ لاہور سے لندن کوہ پیمائی کی مہم پر گامزن تھا۔ چھ ماہ تک ہم نے ان تمام مصائب کا سامنا کیا جو ایسی مہمات کے درمیان پیش آتے ہیں۔ جب ہم بیلجیئم میں ایپرس کے مقام پر پہنچے تو ہم نے مینن گیٹ میمیوریل اور مسنگ مونومنٹ کا دورہ کیا۔ یپرس میں 1914 سے متعدد لڑائیوں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا تھا اور اکتوبر 1918 میں پنجابی سپاہیوں کی اکثریت پر مبنی فوجی دستوں نے جرمن فوج کو شکست فاش سے دوچار کر کے اس سلسلے کا اختتام کیا۔ اس کے ایک ماہ بعد ہی جنگ عظیم اول ختم ہو گئی۔ایک جرمن جرنیل نے سرینڈر کرتے ہوئے پنجابی سپاہیوں کی بہادری سے متاثر ہو کر انہیں یہ تاریخی خطاب دیا تھا: " گدھوں کی رہنمائی میں شیر"۔
ہم دونوں دوست وہا ں کھڑے ہو کر حیرت سے پنجابیوں کی نہ ختم ہونے والی فہرست میں شامل نام پڑھتے رہے جن میں مسلمان پنجابی بڑی تعداد میں تھے۔ سکھوں اور ہندوؤں کے نام بھی شامل تھے۔ اس گیٹ کے سارے اندرونی حصے پر ان سپاہیوں کے نام درج ہیں جو پھر لوٹ کر کبھی واپس نہیں آئے۔ اس کا ایک مسحور کن اثر میرے ذہن پر ہوا اور جب ہم انڈین ٹرینچ میوزیم جانے کا واقعہ یاد کرتے ہیں تو ہمیں سپاہیوں کی جانب سےاپنے پیاروں کو بھیجے گئے سینسرڈ خطوط نظر آتے ہیں جو کبھی بھی ان کے پیاروں تک نہ ہہنچ پائے۔ ان میں سے ایک خط کسی لاہوری سپاہی نے اندرون لاہور میں رہنے والی اپنی ماں کو لکھا تھا۔ "ماں آج کالی مرچیں بہت گرم ہیں"۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ لڑائی میں انتہائی شدت آ چکی ہے۔ شاید وہ ایپرس میں ہی کہیں دفن ہے۔ ان ہزاروں میں سے ایک جو کبھی واپس اپنے گھر نہیں پہنچ پائے۔
جب ہم نے فہرست کے آخری حصے کو پڑھنا شروع کیا تو ہماری نظروں کے سامنے سے حوالدار غلام محمد (129 ڈی سی او) لاہور، جمعدار خان محمد (ایف ایف) لاہور، سپاہی محمد افسر (ایف ایف) لاہور، سپاہی محمد شاہ (55 سی) لاہور، سپاہی نور محمد خان (18-11) لاہور، کے نام گزرے۔ یہ فہرست طویل اور شاید نہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ صرف لاہور سے تعلق رکھنے والے جنگ عظیم اول میں شریک سپاہیوں میں سے چند کے نام ییں جنہوں نے غیر معمولی جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کامن ویلتھ کے جنگی قبروں کے کمیشن (common wealth war Graves commission) کی دستاویزات کے مطابق جنگ عظیم اول کے دوران اندرون لاہور سے لڑنے والے 1024 سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
برسوں پہلے جب میں نے یہ ہفتہ وار کالم لکھنے کے سلسلے کا آغاز کیا تو میں اندرون لاہور اکثر نئی کہانیوں کی تلاش میں جایا کرتا تھا۔ اس دوران میں وہاں بسنے والے اکثر بزرگوں سے پوچھتا تھا کہ کیا انہیں کوئی ایسا شخص یاد ہے جو یہاں سے جنگ عظیم اول لڑنے گیا لیکن کبھی بھی واپس نہ آیا۔ اکثر بزرگ جنگ عظیم دوئم کا ذکر کرتے تھے لیکن کچھ بزرگوں نے اپنے پڑوس میں ایسے افراد کی نشاندہی کی جو 1914 کی " وڈی جنگ" (پہلی جنگ عظیم) کے محاذ سے واپس نہ آ سکے۔ مجھے ان میں سے دو گھر یاد کرنے دیجئے۔
آپ جب لوہاری گیٹ داخل ہوں اور لاہوری منڈی بازار کی جانب پیدل چلیں تو دائیں ہاتھ ہر ایک جگہ آتی ہے جو کوچا کھراسیاں کہلاتی ہے۔ یہاں ایک تنگ گلی میں دین محمد کا گھر تھا جو ایک سپاہی تھا اور کبھی لوٹ کر واپس نہ آ سکا۔ اس کی پڑ پوتی صغریٰ نے ہمیں اپنی دادی سے سنی ہوئی دین محمد کی کہانی سنائی۔ اس کہانی کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
"کہتے ہیں کہ دینو بابا ایک چنچل و خوش مزاج انسان تھا جس نے جرمن فوجیوں کو مارنے کیلئے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ وہ مڈل پاس تھا اور جسمانی طور پر بہت طاقتور تھا۔ اس کی ماں اپنے مرنے تک دین محمد کی پینشن وصول کرتی رہی"۔ اس بات کا اندازہ لگانا بیحد آسان ہے کہ ان سادہ لوح افراد جنہیں برطانوی سامراج نے جنگ میں چارے کے طور پر استعمال کیا کیلئے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کس قدر اہم ہیں۔ البتہ ان کو اب لاہور میں کوئی بھی نہیں جانتا اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ لیکن جنگ عظیم اول میں مرنے والوں کے نام مینن گیٹ بیلجیئم (Menin Gate in Belgium) پر درج ہیں اور شاید ان کی بے نشان قبریں بھی وہیں موجود ہیں۔
اگلا شخص جو میں نے ڈھونڈا وہ جوڑی موڑ کے نزدیک وچووالی میں رہتا تھا۔ یہ خان محمد کا گھر تھا۔ جو افراد اس گھر میں بستے تھے انہوں نے اپنے دادا کا قصہ سن رکھا تھا جو وڈی جنگ سے کبھی واپس نہیں آ پایا۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ " گوروں نے ہمارے گھر کے آگے آ کر سلامی پیش کی تھی۔ ہمارے دادا بھی یہ کہانی بتاتے تھے۔ خان صاحب کہاں اور کیسے مارے گئے ہمیں اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے"۔
یہ ان 1024 جوانوں کی کہانیوں میں سے محض دو کہانیوں کی مختصر سی جھلک ہے جو فلینڈرز، سومے، ایپرس، گیلی پولی، مصر اور چین میں لاپتہ ہو گئے۔ پاکستان کی زمین سے تعلق رکھنے والے پہلی جنگ عظیم کے شہدا کے نام اور ان کی شہادتوں کے دن کے متعلق ایک منظم تحقیقی کاوش انتہائی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اور اس کے ذریعے ان بھولے ہوئے سپاہیوں کے مقبرے تعمیر کر کے ان کو خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں اس فرسودہ خیال سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ مرنے والے ہم میں سے تھے یا "ان" میں سے تھے۔ ہم اپنی تاریخ کو جس طرح مرضی دیکھیں اور سمجھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس مٹی کے بیٹے تھے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب "لوگوں کی تاریخ" لکھی جائے۔ مرنے والا اگر دشمن بھی ہو تو اس کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارا ماضی کسی دوسرے ملک کی تاریخ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے، انہیں ہماری جانب سے عزت و تکریم ملنی چاہیے۔ ہمارے شہروں کی گلیوں اور بستیوں اور دیہاتوں میں یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ شاید یہ اپنی تاریخ اور خود پر مان کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
تحریر میں شامل کی گئی تصاویر Old Indian Photos اور British Library سے لی گئی ہیں۔