کرتار پور گردوارے کا بڑی شان و شوکت سے افتتاح کیا گیا۔ دنیا بھر سے پندرہ ہزار سے زائد سکھ کمیونٹی نے بابا گرو نانک کی پیدائش کے 550 سال کے موقع پر ایک پرجوش تقریب میں شرکت کی۔
1300 سے زائد ایکڑ پر گیارہ ماہ کے دوران تیزی سے تعمیر ہونے والے دنیا کے اس سب سے بڑے گردوارے کے لئے چار کلومیٹر کی راہ داری کو بھارتی ودیگر سکھوں کے لئے کھول دیا گیاہے۔ یہ ایک ایسا قدم تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے بھی پاکستانی وزیر اعظم کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ اس سے عمران خان کی حکومت کو بھی کچھ کہنے کا موقع ملا کہ ہم نے بھی کچھ کیا ہے۔
مگر ایک درد ناک کہانی بھی اس سے جڑی ہوئی ہے۔ نومبر 2018ء میں اس گردوارے کی تعمیر کے لئے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے فوری بعد عمران خان نے اس سائیٹ کا وزٹ کیا اور پھرکرتار پورسمیت نزدیکی گاؤں دودھے کے کسانوں کی زمینیں سرکاری طور پر حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
فوجی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو اس کی تعمیر کا ٹھیکہ دیا گیا۔ کسانوں کی کھڑی فصلیں اجاڑ دی گئیں اور اپریل 2019ء تک 1500 ایکڑ زمین کسانوں سے زبردستی سرکار نے حاصل کر لی اوران کو کچھ نہیں بتایا گیا کہ زمین کی کتنی قیمت ادا کی جائے گی؟ اس کے علاوہ کوئی فوری معاوضہ بھی نہ دیا گیا۔ یہ ایک قسم کاگن پوائنٹ پر زمین حاصل کرنے کا طریقہ کار تھا۔ نزدیکی گاؤں کوٹھے خورد اور کوٹھے کلاں کے کسانوں اور چھوٹے زمین داروں کے ساتھ بھی یہی سلوک رکھا گیا۔
کسانوں نے اپریل 2019ء میں ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی جانب سے وزٹ کرنے والے ایک پانچ رکنی وفد کو بتایا کہ کچھ سکھوں نے ماضی میں رابطہ کیا تھا کہ ہم اپنی زمینیں ان کو پچاس لاکھ روپے فی ایکڑ کے لحاظ سے بیچ دیں۔ مگر ہم نے انکار کر دیا۔
کسانوں کو مقامی انتظامیہ اتنا ہی بتاتی رہی ہے کہ ان کے نقصان کا مداوہ کر دیا جائے گا اور انہیں زمینوں کی اچھی قیمت بھی مل جائے گی۔ کسانوں نے اس موقع پر مختلف مظاہرے بھی کئے مگر کسی نے ان کی نہ سنی۔ کوئی بھی سرکاری معلومات نہ ملنے پر کسانوں میں طرح طرح کے وسوسے پھیلتے رہے اور کنفیوژن میں اضافہ ہوتا رہا۔
1988ء میں اس علاقے کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا مگر اس موقع پر بھی کسانوں نے اپنی اس زمین کو نہ چھوڑا۔ مگر اب تو زبردستی ایک“قومی مقصد”کے لئے ان کی زمینیں حاصل کر لی گئی ہیں۔ پنجاب ایکٹ آف لینڈ ایکوزیشن 1894ء کی شق چار کے تحت یہ زمینیں لی گئی ہیں۔
حکومت نے بجٹ 2019ء میں اسکی تعمیر اور زمین حاصل کرنے کے لئے تجویز کردہ تین ارب روپے کے بجٹ میں سے ایک ارب روپے مختص کر دیے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس پورے پراجیکٹ پر حکومت 13 ارب روپے خرچ کرنے کا پلان کئے ہوئے ہے۔
تیزی سے تعمیر ہونے والے اس گردوارے کی دردناک کہانی یہ ہے کسانوں کی اکثریت کو ابھی تک کوئی رقم نہیں ملی اور یہ کہا جارہا ہے کہ ایک ایکڑ کی قیمت 7سے 8لاکھ تک ملے گی۔ اگرچہ کسانوں کی زمینوں پر بنے اس گردوارے کی ایک ایک دکان کی پگڑی بھی 25 لاکھ تک ہے۔ اس جگہ زمین کمرشل ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ زمین کی قیمت 40سے 50 لاکھ تک ہے۔ مگر حکومت کسانوں کو یہ قیمت اداکرنے کا کوئی ارادہ نہیں کر رہی۔
گاؤں دودھے کے مکین چار ماہ قبل فوت ہونے والے کسان راہنما محمد خلیق نے اس سال کے شروع میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی سے بذریعہ وحید بھٹی رابطہ کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ ہماری زمینوں پر کھڑی فصلیں تباہ کر دی گئی ہیں اور ہمیں بتایا بھی نہیں جا رہا کہ حکومت ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنے والی ہے، اس بات کو بھی اب ایک سال ہو گیا ہے۔
خلیق غم کے بوجھ اور بیماری کی وجہ سے جون 2019ء میں وفات پا گیا۔ مگر اس کے خاندان سمیت دیگر کسانوں کو نہ تو رقم دی گئی ہے اور نہ بتایا گیا ہے کہ کتنی رقم دی جائے گی۔ پوری دنیا میں اس راہداری کے کھلنے کا جشن منایا جا رہا ہے مگر جن کسانوں کی زمینوں پر یہ تعمیر ہوا ہے، وہ ان خوشیوں میں شریک نہ ہو سکے ہیں۔
یہ خبر روزنامہ جدوجہد میں شائع ہوئی