معاملہ کچھ یوں تھا کہ مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل چودھری احسن اقبال نے ایک ٹوئیٹ کی جس میں انہوں نے واشنگٹن پوسٹ پر ایشان تھرور کے لکھے ایک مضمون کی ہیڈ لائن کو ٹوئیٹ کیا تھا۔ اس کی ہیڈلائن کا اردو ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے: ٹرمپ کی شکست دنیا بھر کے آمروں اور عوام کو جھوٹے خواب دکھانے والے لیڈران کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ احسن اقبال نے اس پر لکھا کہ پاکستان میں بھی ہمارے پاس ایک ایسا شخص ہے۔ اسے بھی جلد باہر کا رستہ دکھا دیا جائے گا۔
اس ٹوئیٹ میں عمران خان کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن یقیناً ان کے مخالف ہونے کی حیثیت سے احسن اقبال کا اشارہ ان کی طرف ہی تھا۔ تاہم، امریکی ایمبیسی کے سرکاری اکاؤنٹ سے اس ٹوئیٹ کو ریٹوئیٹ کیا گیا تو اس کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عمران خان پر ایک حملہ قرار دیا۔ جہاں احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نام لیے بغیر جھوٹے خواب دکھانے والا اور آمرانہ خیالات کے حامل لیڈر کے بارے میں حکومتی عہدیداروں کو خود ہی پتہ چل گیا کہ کون ہے۔
تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے اس معاملے کو اٹھایا جانا فطری تھا لیکن حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے اس طرح کے بیانات سمجھ سے باہر ہیں۔ ایک طرف گورنر عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کے خلاف ٹوئیٹ کو کیسے ریٹوئیٹ کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری ایک قدم آگے جاتے ہوئے بولیں کہ امریکی ایمبیسی کی جانب سے دی گئی صفائی ناکافی ہے، خصوصاً اتنا وقت گزر جانے کے بعد۔
انہوں نے کہا کہ امریکی ایمبیسی کا اکاؤنٹ یقیناً ہیک نہیں ہوا تھا کیونکہ ایمبیسی کے مطابق ان کا اکاؤنٹ ایک ایسے شخص کے پاس تھا جس کو یہ چلانے کی اجازت تھی نہ ہی یہ ٹوئیٹ کرنے کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناقابلِ قبول ہے کہ امریکی ایمبیسی میں ایک ایسا شخص کام کر رہا ہے جو کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے یہاں امریکی ایمبیسی کے سٹاف کو یہ دھمکی بھی دی کہ مستقبل میں ایسے لوگوں کو ویزا حاصل کرنے کے عمل میں بھی کڑی نگرانی سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔
شیریں مزاری کا ٹوئیٹ اس حوالے سے ایک اور ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت خارجی محاذ پر بالکل نااہل ہے۔ یہاں بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بجائے شیریں مزاری صاحبہ نے تمام سفارتی قدغنوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی ایمبیسی کے خلاف انتہائی سخت ٹوئیٹ کر دی اور ان کے ویزوں کے معاملات میں بھی رخنے ڈالنے کا عندیہ دے دیا۔ یہ سب ایک ایسے ماحول میں ہو رہا ہے کہ جب امریکہ میں ایک نئی انتظامیہ چند ہفتوں میں اقتدار سنبھالنے والی ہے۔ الیکشن سے قبل عمران خان کی جانب سے جرمن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن کے حق میں فضا ہے لیکن ٹرمپ بڑے غیر متوقع انداز میں کام کرتا ہے۔ انٹرویوئر نے ان کی ٹرمپ کے لئے پسندیدگی بھانپتے ہوئے پوچھ ہی ڈالا کہ آپ کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ آپ انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ عمران خان نے بھی سفارتی سمجھ بوجھ سے بالکل کام نہ لیا اور اعتراف کر ڈالا کہ وہ ڈانلڈ ٹرمپ اور خود میں بہت کچھ مماثل دیکھتے ہیں کیونکہ دونوں کو ہی سیاست میں مروجہ اصولوں سے ہٹ کر فیصلے کرنا پڑے ہیں۔
اس سے ان کی ناتجربہ کاری واضح ہوتی ہے۔ الیکشن سے محض ایک ہفتہ قبل یہ پیغام دینا کہ آپ کسی ایک امیدوار کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں، ان کو پسند کرتے ہیں، ایک غلط فیصلہ تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکی ایمبیسی کی جانب سے جس کسی نے بھی یہ غلطی کی، یہ ایک سنگین غلطی تھی کیونکہ امریکہ پر ہمیشہ سے پاکستان جیسے ممالک کی سیاست میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس پر اتنا سخت رد عمل کہ امریکی ایمبیسی سٹاف کو ویزوں کے حوالے سے دھمکی دی جائے، اس کی کمزور سیاسی صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔
کسی بھی سفارتی اور سیاسی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کے خیال میں اس وقت حکومتِ پاکستان کو نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الٹا ان کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرنا حکومت کے لئے کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہوگا۔ شاہ محمود قریشی ماضی میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کر چکے ہیں، گو کہ ان کے دور کا آخری حصہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا تھا لیکن ان کو چاہیے کہ اپنے تعلقات کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم اپنی کابینہ کے اراکین کو ہوش کے ناخن لینے کی نصیحت کریں۔ وگرنہ اپوزیشن تو چاہتی ہی ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ہی عمران خان حکومت کی بھی چھٹی ہو جائے۔ یہ احسن اقبال کی ٹوئیٹ سے ہی واضح ہے۔ اس طرح کے بیانات سے حکومتی عہدیداران اپوزیشن کا کام ہی آسان کر رہے ہیں۔