روبوٹک سرجری کی تکنیک پاکستان کے نظام صحت میں انقلاب لا سکتی ہے؟

روبوٹک سرجری میں تربیت یافتہ سرجن خصوصی طور پر بنائے گئے روبوٹ سے آپریشن کرتے ہیں۔ روبوٹک ہاتھ میں انسانی ہاتھ کی طرح فطری ارتعاش یا لرزش نہیں ہوتی اور اسے 360 ڈگری بلکہ 720 ڈگری کے زاویہ پر بھی گھمایا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس میں لگے کیمرے کی مدد سے اصل سے دس گنا بڑی اور بہت واضح تصویر نظر آتی ہے۔

04:01 PM, 11 Nov, 2023

ڈاکٹر خرم نیازی

دیگر انسانی دریافتوں اور ایجادات کی طرح جراحت کے ارتقا کی کہانی بھی بہت ہوشربا ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر قرونِ وسطیٰ تک جراحت کو طب کا حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ صدیوں تک ڈاکٹروں کے لیے ضابطہ اخلاق سمجھے جانے والے بقراط کے حلف میں سرجری سے منع کیا گیا تھا جبکہ دنیا کے اولین تحریری قوانین حمورابی کے کوڈ میں بھی سرجن کے لئے سخت ترین سزائیں درج تھیں۔ اعضا اور ان کے درست افعال کے بارے میں انسانی معلومات انتہائی ناقص تھیں۔ ایک بڑی وجہ چرچ کی جانب سے انسانی بدن کی چیر پھاڑ پر عائد پابندی بھی تھی۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں یورپی ریناساں ہوا۔ کلیسا کا اذہان اور افکار پر شکنجہ کچھ نرم پڑا۔ سولہویں صدی میں برسلز کے طبیب آندرے ویسالئیس نے اپنے ہاتھ سے مردہ انسانوں کی کاٹ پیٹ کر کے ان حقائق کا سراغ لگایا جو اس سے قبل انسان پر منکشف نہیں ہوئے تھے اور سائنسی اناٹومی کی بنیاد رکھی۔

اناٹومی سمجھے بغیر جراحت ممکن نہیں۔ خود لفظ سرجری یونانی کِر اُرگیا کی بگڑی شکل ہے جس کا مطلب ہے ہاتھ سے کام کرنا۔ دنیا میں یہ کام پہلے حجام یا باربر کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن میں اس پیشے کی تنظیم کا نام حجاموں اور سرجنز کی کمپنی تھا جو 1540 میں رجسٹر ہوئی۔ سرجنز کو اپنی شناخت حجاموں سے الگ کرتے کرتے دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ نائی کا استرا جراح کا نشتر بن گیا۔ رائل کالج آف سرجنز کی بنیاد پڑنے کے بعد سرجری کو ان لوگوں کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اطباء کی طرح میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی ہو۔

پچھلے سو سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ سرجری کے پیشے میں بھی کئی انقلاب برپا ہوئے ہیں۔ سرجری کے عروج میں جدید انیستھیسیا، جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) اصول اور جدید سرجیکل اوزار اور تکنیکوں کا ناقابل تردید کردار رہا۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے افراد میں سرجنز سرفہرست ہوتے ہیں۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ جدید سائنس کی آمد سے قبل سرجری پیشہ نہیں بلکہ کاریگری تھی۔

ڈاکٹر نعمان ظفر پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر میں کنسلٹنٹ یورولوجسٹ اور روبوٹک سرجن ہیں۔ نعمان نے یورولوجی (گردہ اور پیشاب کے راستے کی جراحت) کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد دو سال روبوٹک اور چھوٹے شگاف سے سرجری کرنے کی اضافی تربیت حاصل کی۔ ان کا تقرر ڈربی شائر کے مرکزی اسپتال میں ہو گیا جہاں انہوں نے روبوٹک سرجری کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا اور مختصر عرصے میں نیک نامی حاصل کی۔ پی کے ایل آئی کے قیام کے ساتھ ہی وہ لاہور چلے گئے۔ ہم نے روبوٹک سرجری کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے رابطہ کیا۔

سوال: روبوٹک سرجری سے کیا مراد ہے؟ کیا روبوٹ انسانی جسم کی کاٹا پیٹی کرتے ہیں؟

نعمان: (ہنستے ہوئے) نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ساری سرجری مشینیں کرتی ہیں۔ روبوٹک سرجری میں تربیت یافتہ سرجن خصوصی طور پر بنائے گئے روبوٹ سے آپریشن کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں اس روبوٹ کا مکمل کنٹرول سرجن کے پاس ہوتا ہے۔ سرجری کرنے والے آلات کو روبوٹ نے پکڑا ہوتا ہے۔ روبوٹک ہاتھ میں انسانی ہاتھ کی طرح فطری ارتعاش یا لرزش نہیں ہوتی اور اسے 360 ڈگری بلکہ 720 ڈگری کے زاویہ پر بھی گھمایا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس میں لگے کیمرے کی مدد سے اصل سے دس گنا بڑی اور بہت واضح تصویر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انسان خود بہت باریک بینی، چابکدستی اور پرفیکشن سے جراحت کا عمل مکمل کرتا ہے۔

سوال: روبوٹک سرجری کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟

نعمان: اس کا آغاز تو قریباً 50 سال قبل ہو گیا تھا جس میں سرجن روایتی طور پر مریض کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے فاصلے پر، یہاں تک کہ کسی دوسری عمارت میں بیٹھ کر جراحت کا عمل کر سکتا تھا لیکن امریکہ کے انضباطی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی نے اس طریقہ کار کی سیفٹی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد 2000 میں اس کی اجازت دی۔

سوال: روبوٹ کی مدد سے کون سی جراحت کی جا سکتی ہیں؟

نعمان: اس وقت بہت سی اقسام کے آپریشن روبوٹ کی مدد سے کئے جا رہے ہیں لیکن جو سرجیکل سب سپیشلٹی پیش پیش ہیں ان میں یورولوجی، گائنا کولوجی، کولو ریکٹل، اپر جی آئی، جگر اور پتے کی سرجری، آرتھوپیڈک، کارڈیو تھوریسک، فیشیو میگزیلری اور کان، ناک، حلق سب کی سرجری شامل ہیں۔

سوال: روایتی سرجری کے مقابلے میں روبوٹک سرجری کی افادیت کیا ہے؟

نعمان: روبوٹک سرجری کے فوائد مریض، سرجن اور نظام صحت سب کے لئے ثابت شدہ ہیں۔ مریض کو فائدہ یہ ہے کہ آپریشن انتہائی درستی اور باریکی کے ساتھ جسم کے ایسے حصے میں بھی کیا جا سکتا ہے جہاں انسانی ہاتھ کی مدد سے آلات کی رسائی ممکن نہیں۔ یہ سب ایک چھوٹے چیرے یا شگاف اور کیمرے کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ اس لئے دوران جراحت خون زیادہ بہہ جانے سمیت دیگر پیچیدگیوں کا امکان کم ہوتا ہے۔ شاذ و نادر ہی انتقال خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعد از آپریشن درد میں بھی زیادہ شدت اور تیزی نہیں ہوتی۔ مریض بہت جلد چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور عموماً اسی دن یا اگلے روز گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں کچھ دن آرام کرنے کے بعد وہ اپنے معمولات زندگی روٹین کے مطابق سرانجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔

سرجن کو فائدہ یہ ہے کہ وہ بلا سکرب ہوئے یعنی بھاری بھرکم گاؤن، ٹوپی، ماسک اور دستانے پہنے بغیر آرام دہ کرسی پر نارمل انداز میں بیٹھ سکتا ہے۔ آپریشن کسی نازک مرحلے میں نہ ہو تو خور و نوش اور حوائج ضروریہ سے بھی فارغ ہو سکتا ہے۔ روایتی سرجری کی غیر فطری وضع پر جھکنے یا مسلسل کھڑے رہنے سے اپنے پٹھوں اور جوڑوں کو پہنچنے والے دائمی نقصان سے بچ سکتا ہے۔ بلا تھکاوٹ تادیر ایک سے زائد آپریشن کر سکتا ہے۔ بحیثیت سرجن اس کی زندگی کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔

نظام صحت کے لئے روبوٹک سرجری ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ مریض کے جلد ڈسچارج ہونے سے بستروں اور نرسنگ سٹاف پر سے دباؤ کئی گنا کم ہو جاتا ہے۔

سوال: کس قسم کے آپریشن میں روبوٹک سرجری کو روایتی سرجری پر واضح فوقیت حاصل ہے؟

نعمان: وہ تمام ہی آپریشن جو لیپراسکوپی کے ذریعے انجام پاتے ہیں ان میں اعضا تک رسائی کے علاوہ ایک بہت بڑا چیلنج ٹانکے لگانا ہوتا ہے۔ روبوٹ ان دونوں رکاوٹوں کو عبور کرنے میں سرجن کی معاونت کرتا ہے۔ مختلف زاویوں سے گھومنے کی صلاحیت کی وجہ سے ناممکن سلائی بھی بہ آسانی اور جلدی جلدی ہو جاتی ہے۔

سوال: کن ممالک میں سب سے اچھی روبوٹک سرجری کی جاتی ہے؟

نعمان: اس سوال کا جواب مختلف طریقے سے دوں گا۔ اس وقت دنیا میں دو کمپنیاں یہ روبوٹ بنا رہی ہیں۔ امریکی فرم انٹیوٹِو سرجیکل نے سب سے پہلا روبوٹ بنایا اور اس کا نام ڈاونچی رکھا۔ ڈاونچی دنیا کے تقریباً 70 ممالک کے زیر استعمال ہے۔ ایک کروڑ سے زائد آپریشن اس کی مدد سے کئے جا چکے ہیں۔ یہ کمپنی 65 ہزار سرجنز کو اپنا روبوٹ استعمال کرنے کی تربیت دے چکی ہے۔ دوسری کمپنی برطانوی سی ایم آر روبوٹکس ہے جس نے 2014 میں ورسیئس نام کا روبوٹ متعارف کرایا اور یہ اب تک کم از کم 20 ممالک میں اپنا نظام نصب کر چکی ہے۔

روبوٹک سرجری امریکہ میں بہت عام ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ، یورپ، آسٹریلیا، چین، انڈیا اور سنگاپور سمیت کئی خطوں میں مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی کامیابی میں سب سے اہم عامل سرجن کی تربیت اور مہارت ہے۔ ایک مستند تربیت یافتہ سرجن ہی آپریشن کے اچھے نتائج کا ضامن ہے۔

سوال: کیا ایک ہی روبوٹ کئی مختلف آپریشن اور سپیشلٹی میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

نعمان: جی بالکل۔ ایک ہی روبوٹ کو مختلف آپریشن میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ مختلف سپیشلٹی میں اوزار اور اپروچ مختلف ہوں گے۔ سرجن کی اپنی مہارت اور انسانی جسم، بیماریوں کی معلومات اور تجربہ بھی مختلف ہو گا۔

سوال: ایک روبوٹ خریدنے پر کتنی لاگت آتی ہے؟

نعمان: اس سوال کا جواب اتنا سادہ نہیں کیونکہ بنانے والی کمپنیاں اسپتالوں اور نظام صحت سے سودے بازی کرتی ہیں۔ وہ طویل مدتی معاہدوں میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ عام طور پر ابتدائی لاگت 15 سے 20 لاکھ برطانوی پاؤنڈ ہے جبکہ مینٹیننس پر سالانہ ایک سے دو لاکھ پاؤنڈ خرچہ آ جاتا ہے۔ ان میں زیر استعمال اوزار کی قیمت بھی 500 پاؤنڈ بن جاتی ہے جو ایک سے زائد بار استعمال کئے جا سکتے ہیں۔

سوال: کیا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں سرجری کے لئے روبوٹ کی خریداری فضول خرچی اور عیاشی نہیں؟

نعمان: یہ بہت دلچسپ سوال ہے اور کئی پہلوؤں سے اس کو جسٹیفائی کیا جا سکتا ہے۔ شاید کم لوگوں کو علم ہو کہ پاکستان سے ہر سال ہزاروں افراد روبوٹ کی مدد سے مختلف آپریشن کرانے کے لئے امریکہ، برطانیہ، چین حتیٰ کہ بھارت کا رخ کرتے ہیں جس سے بہت سارا زرمبادلہ ملک سے نکل جاتا ہے۔ اگر ہمارے پاس یہ سہولت موجود ہو تو ہم سرمایے کی اس نکاسی کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان سرجری کی اس شاخ میں ترقی کر کے بھارت، چین، ترکی اور دبئی کی طرح طبی سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے۔ ثقافتی ہم آہنگی دنیا کے بہت سے باشندوں کو ہماری طرف متوجہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

تیسری وجہ یہ کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسے بہتر سے بہتر علاج میسر ہو۔ روایتی آپریشن جس میں بہت بڑا چیرہ لگایا جاتا ہے، کے بعد مریض کو آٹھ دس دن اسپتال اور تین چار ماہ گھر پر صاحبِ فراش رہنا پڑتا تھا۔ اس کے مقابلے میں اسی آپریشن کو روبوٹ سے کیا جائے تو مریض ایک سے دو دن اسپتال میں رہنے کے بعد گھر جاتا ہے اور دو تین ہفتے میں دوبارہ اپنے روزمرہ کے مشاغل جاری کر لیتا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ خود محنت مشقت سے کماتے کھاتے ہیں، اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بِتاتے ہیں، ایسے میں روبوٹ کا ہونا ایک انتہائی کم خرچ اور دیرپا آپشن ہے۔ پاکستان میں آبادی بڑھ رہی ہے، اسپتالوں اور بیڈز کی تعداد سرکاری اور غیر سرکاری دونوں نظاموں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے روبوٹ سے سرجری کر کے آپ جلد مریض کو ڈسچارج کر کے خالی ہونے والے بیڈ کو دوسرے مریض کو مختص کر سکتے ہیں۔

ایک اہم لیکن عام طور پر نظرانداز کیا جانے والا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں طبی سہولیات اور جدید آلات کے فقدان سے ہمارے ان ڈاکٹروں کی تربیت بری طرح متاثر ہوتی ہے جو پوسٹ گریجویشن کرنا چاہتے ہیں۔ مجبوراً انہیں مغربی ممالک ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ وہاں ٹریننگ مکمل کر کے واپس آنے کے بہت سے راستے اور دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں سے انتہائی ذہین افراد اس برین ڈرین کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے نظام صحت کو جدید سہولیات سے آراستہ کریں گے تو پورا معاشرہ اس کے دور رس ثمرات سے ہمکنار ہو گا۔

سوال: آپ نے سخت جدوجہد کر کے اور قربانیاں دے کر اعلیٰ مہارت سے خود کو لیس کیا۔ یہاں ڈربی شائر میں نیک نامی حاصل کی لیکن پھر اچانک اپنی خدمات پاکستان میں ایک سرکاری اسپتال کے سپرد کر دیں، کیا وہاں آپ کی صلاحیت اور تربیت سے استفادہ کیا جاتا ہے؟

نعمان: جیسا کہ آپ ذاتی طور پر واقف ہیں، میں یورولوجی میں اپنی ٹریننگ پوری کر کے ایک سال روبوٹک کی فیلوشپ کے لئے پیرس چلا گیا جہاں میرا وظیفہ بہت کم تھا، اس دوران میرے اہل خانہ انگلستان میں مقیم رہے۔ میں ہر ویک اینڈ پر انگلستان آ کر کام کرتا اور پیر کی صبح روبوٹک سرجری سیکھنے پیرس پہنچتا۔ یہ ہمارے لئے بہت مشکل وقت تھا۔ بہرحال میرا جذبہ اور سخت محنت رنگ لائی اور میں خواہش کے مطابق اپنا کردار ادا کر سکا۔ اس دوران 2017 میں جب پی کے ایل آئی اپنی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں تھا تو اس کی انتظامیہ نے مجھ سے رابطہ کر کے وہاں روبوٹک سرجری کا آغاز کرنے کی دعوت دی اور میں لاہور چلا آیا۔ کچھ انوکھی وجوہات کی بنا پر پی کے ایل آئی میں روبوٹ کی تنصیب کئی سال التوا کے بعد صرف 6 ماہ قبل ہی عمل میں آئی لیکن ہم نے اس کی مدد سے بغیر کسی پیچیدگی کے 61 آپریشن مکمل کر لئے ہیں۔

سوال: کیا پاکستان میں آپ جیسے اعلیٰ تربیت یافتہ پیشہ ور شخص کے لئے حالات سازگار ہیں؟

نعمان: مالی مشکلات اور ترجیحات کے تعین کی وجہ سے نظام صحت میں تنزلی ہی محسوس ہوتی ہے۔ نوجوان ڈاکٹروں کے علاوہ پہلے سے کام کرنے والے ڈاکٹروں میں مایوسی عام ہے۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ پی کے ایل آئی جیسے ادارے نے مجھے خدمت کا موقع دیا۔ اس دیوہیکل ادارے کو پنجاب گورنمنٹ فنڈ کرتی ہے اور ہمیں مریض کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اس کی جیب کو ذہن میں نہیں رکھنا پڑتا۔ یوں سمجھیں کہ یہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی طرح کا سیٹ اپ ہے۔ میرے لئے یہ ایک بہت اطمینان بخش تجربہ رہا ہے۔ کوشش ہے کہ اپنے مریضوں کو بین الاقوامی معیار کی سروسز دیں۔ یہ بھی کاوش ہے کہ زیر تربیت ڈاکٹر ایک سٹرکچرڈ تربیتی پروگرام سے گزر کر جب فارغ التحصیل ہوں تو ان میں کوئی کسر نہ رہے۔ وہ ہم وطنوں کے لئے اچھے کنسلٹنٹ ثابت ہوں۔ میں دیگر تارکین وطن سے بھی التجا کروں گا کہ ایک دوسرے کو موٹیویٹ کریں اور اپنے اپنے شعبوں میں کچھ توجہ، وقت اور دلچسپی پاکستان کے لئے بھی محفوظ کر کے رکھیں تا کہ ہم آج کے غیر یقینی حالات سے کبھی نہ کبھی نکل کر ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو سکیں۔

مزیدخبریں