'جسٹس مظاہر نقوی چاہتے ہیں ریفرنس کی سماعت ہم خیال ججز کریں'

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں لہٰذا ان تین جج صاحبان کو میرا کیس نہیں سننا چاہئیے۔ میرے خلاف کارروائی سیاسی ایما پر ہو رہی ہے جو غیر قانونی اور نامناسب ہے۔

06:36 PM, 11 Nov, 2023

نیا دور
Read more!

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تین ججز پر اعتراض اس لیے اٹھایا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف شکایتوں کی سماعت ان کے ہم خیال گروپ کے جج صاحبان کریں تا کہ ان کو ریلیف مل سکے۔ یہ دعویٰ کیا ہے صحافی اسد علی طور نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد طور کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے بھیجے گئے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے چیف جسٹس قاضیٰ فائزعیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس نعیم اختر افغان پر اعتراض اٹھا دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں مبینہ آڈیو لیک سکینڈل پر جسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 نومبر تک تحریری جواب داخل کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اجلاس میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم افغان نے بطور ممبر شرکت کی۔ ان کے علاوہ رجسٹرار سپریم کورٹ اور اٹارنی جنرل بھی اجلاس میں شامل تھے۔

10 نومبر کی مہلت گزر جانے کے باوجود جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے شوکاز نوٹس کا ناصرف جواب جمع نہیں کروایا بلکہ تین سینیئر ترین جج صاحبان پر 18 صفحات پر مشتمل اعتراضات جمع کروا دیے جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں لہٰذا ان تین جج صاحبان کو میرا کیس نہیں سننا چاہئیے۔

صحافی نے کہا کہ سب سے پہلا اعتراض جسٹس مظاہر نقوی نے یہ کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان اس آڈیو لیک کمیشن کا بھی حصہ ہیں جو ان کی اور پرویز الہیٰ کی آڈیو لیک کی تحقیقات کر رہا ہے۔ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہئیے۔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہئیے۔ جانبدار جوڈیشل کونسل کا اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔

جسٹس مظاہر نقوی کا مؤقف ہے کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ مل کر میرے خلاف کارروائی کیلئے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا تھا۔ موجودہ جوڈیشل کونسل کے تمام فیصلے جانبدار ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تصور ہوں گے۔ جسٹس سردار طارق کے خلاف شکایت پر ان کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر شکایت کنندہ آمنہ ملک کو نوٹس بھیجا گیا۔ کونسل کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف بھی شکایات 27 اکتوبر کے اجلاس میں زیر غور تھیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ایک اور اعتراض عائد کیا کہ سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی تاہم انہوں نے فوری رائے جمع کروانے کے بجائے اس کو 3 ماہ تک روکے رکھا۔ اس لیے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میرے خلاف کارروائی سیاسی ایما پر ہو رہی ہے جو غیر قانونی اور نامناسب ہے۔

صحافی نے کہا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے وہ خط کارروائی کے لیے نہیں بلکہ اس لیے لکھا تھا کہ معاملہ طوالت کا شکار نہ ہو۔ اگر الزامات درست ہیں تو کارروائی کی جائے، ورنہ خارج کر دیے جائیں۔ جبکہ رائے 3 ماہ تک ہولڈ کرنے کے حوالے سے بھی ان کا اعتراض ٹھیک نہیں کیونکہ جسٹس سردار طارق مسعود اس دوران چھٹیوں پر تھے اور اس بارے میں سب کو علم تھا۔ اس کے علاوہ جسٹس مظاہر نقوی ایک یوٹیوبر کی جانب سے پھیلائی گئی جھوٹی خبر کی بھی آڑ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس عرفان سعادت خان کے حلف کی تقریب میں جسٹس طارق مسعود نے کہا تھا کہ میں مظاہر نقوی کو نہیں چھوڑوں گا۔ جبکہ اس تقریب میں دیگر صحافی بھی موجود تھے اور جسٹس طارق مسعود نے ایسی کوئی گفتگو نہیں کی تھی۔

جسٹس مظاہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف بھی شکایت آئی ہوئی ہے، ان کو کیوں موقع دیا گیا ہے کہ درخواست گزار آئے اور شواہد فراہم کرے اور پھر دونوں کو بٹھا کر اس کو سنا جائے گا۔ مجھے بھی موقع ملنا چاہئیے تھا۔

جسٹس مظاہر نقوی کا مزید کہنا ہے کہ میرے خلاف کارروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میری بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی سمیت میرے متعدد فیصلوں کی مخالفت کی۔ سپریم جوڈیشل کمیشن کے 2014 کے اجلاس کے منٹس اور ان کا اختلافی نوٹ مانگنے پر بھی نہیں دیا گیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس سے میرا میڈیا ٹرائل ہوا ہے جس کا مقصد عوام کی نظر میں میری تضحیک کرنا تھا۔

صحافی نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی چاہتے ہیں کہ جو تین جج صاحبان ان کے دھڑے کے نہیں، وہ ان کا کیس نہ سنیں اور جو دو جج یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی یا شوکاز نہیں ہونا چاہئیے، وہ ججز یہ کیس سنیں۔ یعنی جو جج ان کے ہم خیال گروپ کا نہیں ہے وہ ان کا کیس نہ سنے اور جو 'بندیال پرست' تھے وہ بیٹھے رہیں۔

مزیدخبریں