بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (30 ستمبر تا 6 اکتوبر)

09:29 AM, 11 Oct, 2018

نیا دور

اختر مینگل کا پی ٹی آئی حکومت کی حمایت سے الگ ہونے کا عندیہ


لگتا ہے حکومت ہمارے چھ نکاتی ایجنڈے پر عمل میں دلچسپی نہیں رکھتی، سردار اختر مینگل


جب وہ ہمارے ساتھ نہیں چلنا چاہتے تو ہمیں بھی ان کے کندھوں پر سوار ہو کر چلنے کی ضرورت نہیں، خطاب


بلوچستان نیشنل پاٹی کے قائد رکن قومی اسمبلی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے ہم نے وفاقی حکومت کو 6 نکاتی ایجنڈا دیا تھا۔ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ اس چھ نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے کیلئے حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے جب وہ ہمیں ساتھ لے کر چلنا نہیں چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے کندھوں پر سوار ہو کرچلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت اپنے حلقہ انتخاب میں ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار کیلئے جلسوں میں مصروف ہیں اور جلد ہی اسلام آباد پہنچے کے بعد پارٹی کی ہائی کمان کا اجلاس بلائیں گے جس میں بہت سے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 6 نکاتی ایجنڈا جو ہم نے حکومت کو دیا تھا اس میں سے وسائل اور اختیارات سمیت افغان مہاجرین کا مسئلہ پہلے ہی ہمارے ایجنڈے سے نکال دیا گیا تو ہم نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ کہ ہم جلد ہی پارٹی کے ہائی کمان کا اجلاس طلب کر کے اہم فیصلے کریں گے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں توقع تھی کہ حکومت ہمارے چھ نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد شروع کرے گی مگر ابھی تک جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت ہمارے چھ نکاتی ایجنڈے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر ان کو ہمارے ایجنڈے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تو ہمیں بھی ان کے کندھوں پر سوار ہوکر چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔






بلوچستان: مالی بحران شدید، ہزاروں ملازمین تنخواہوں سے محروم


صوبے کے محکمہ بلدیات کے کنٹریکٹ ملازمین کو 2 ماہ سے تنخواہیں ادانہیں کی گئیں


میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ملازمین بھی سارا دن تنخواہوں کے حصول کیلئے بینکوں کے چکر لگانے پر مجبور


حکومت بلوچستان کا مالی بحران سنگین ہو گیا، صوبہ بھر کے محکمہ بلدیات کے ہزاروں ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں، ٹھیکداروں اور نجی فرمز کو ترقیاتی کاموں کی مد میں جون کے بعد ادائیگی نہیں کی گئی ہے جس کے بعد صوبے بھر میں جاری ترقیاتی کام بند ہونے کا بھی خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ صورتحال پر غور کرنے کیلئے صوبائی وزارت خزانہ کے افسروں کا اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے فنڈز کا بندوبست کرنے کیلئے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیاجائے گا۔ ذرائع کے مطابق صرف میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ملازمین کی تعداد 4 ہزار کے قریب ہے جو تنخواہوں کے حوالے سے اپنے دفاتر اور بینکوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب تمام سرکاری محکموں میں بلوں کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث ترقیاتی منصوبوں پر جاری کام بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صورتحال بہتر نہ ہوئی تو صوبے کی معاشی حالت مزید ابتر ہوجائے گی اور دیگر محکموں کے لاکھوں ملازمین کے آئندہ ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہونے کا خدشہ بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے صوبے کے مالی بحران کو حل کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو حکومتی مشینری جام ہو سکتی ہے۔






این اے 258، پی بی 5 اور 21 کے انتخابات کالعدم قرار، دوبارہ پولنگ کا حکم


این اے 258 سے سردار اسرار ترین، پی بی 21 سے انجینئر زمرک خان اور پی بی 5 سے سردار مسعود خان کامیاب ہوئے تھے


الیکشن کمیشن نے بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 258 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 5 اور 21 کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔ این اے 258 لورالائی سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار اسرار ترین نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ پی بی 21 قلعہ عبداللہ سے اے این پی کے انجینئر زمرک خان اور پی بی 5 سے آزاد امیدوار سردار مسعود علی خان کامیاب ہوئے تھے۔ بعدازاں الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 259 میں بے ضابطگیوں پرشاہ زین بگٹی کی کامیابی کے خلاف میر باز محمد کھیتران کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد معاملہ ٹربیونل میں بھیج دیا۔ حلقہ پی بی 11 پر بلوچستان عوامی پارٹی کے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی میر سکندر عمرانی کے خلاف انتخابی عذرداری کی درخواستیں خارج کر دیں۔






بلوچستان میں جاری 4 ہزار سکیموں کیلئے فنڈز دستیاب نہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان


قوم پرستی کی سیاست نے بلوچستان کو پسماندہ رکھا، ٹینڈر کیا، افتتاح ہوا، تصویریں کھنچیں، 4 دن مشین چلی پھر کام بند، جام کمال


وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ ہماری سیاست کا پیمانہ صاف و شفاف ترقیاتی عمل کے ذریعے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کر کے ان کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ حقیقی ضروریات کے مطابق منصوبے مرتب کر کے ان کے معیار اور بروقت تکمیل کی نگرانی کی جائے گی تاکہ لوگ خود گواہی دیں کہ واقعی یہ معیاری منصوبے ہیں۔ بلوچستان ہم سے بہت کچھ مانگ رہا ہے، ہم اپنے وسائل کو عوام کیلئے استعمال کریں گے۔ زیارت میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پورے بلوچستان کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پرحل ہوں۔ ہماری اجتماعی سوچ ہے، ماضی میں منصوبے صرف کاغذوں تک ہی محدود تھے، زمین پر کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، ہم نے نہ صرف منصوبے شروع کیے بلکہ ان کو شفاف انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جام کمال نے کہا کہ ماضی میں قوم پرستی، مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر سیاست کی گئی اور بلوچستان کو پسماندہ رکھا گیا، خزانے میں سو روپے تھے اور پانچ ہزار کے منصوبے بنا دیے گئے، ٹینڈر کیا، افتتاح ہوا، تصویریں کھینچی گئیں، چار دن مشینری چلی اور پھر کام بند ہو گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار تک سکیمیں ایسی ہیں جن کیلئے فنڈز دستیاب نہیں، صوبے کو اس مقام تک کسی اور نے نہیں ہم نے پہنچایا ہے، اس کا الزام ہم کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ قوم پرست کہتے ہیں وفاق نے ظلم کیا لیکن یہ ظلم ہم نے خود کیا، اپنی ناکامی چھپانے کیلئے دوسروں پر تنقید کر کے عوام کو گمراہ کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے سرخی پاؤڈر کی سیاست نہیں کرنی، جو کریں گے وہ نظرآئے گا۔ انہوں نے کہا کہ عوام بھی ترقی کو سیاست کا پیمانہ بنائیں اور جو اس پیمانے پر پورا اترے اس کو سپورٹ کریں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب ہم نے ترقی کی بات شروع کی تو دوسروں نے بھی اس کی پیروی شروع کر دی۔






بلوچستان اسمبلی: سیندک پراجیکٹ کا کنٹرول بلوچستان کے حوالے کرنے کی قرارداد منظور


معاہدوں کا جائزہ لینے کیلئے 9 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ، صوبائی کابینہ تمام امور کا جائزہ لے گی، وزیراعلیٰ کی یقین دہانی


بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سیندک گولڈ اینڈ کاپر پراجیکٹ کا کنٹرول بلوچستان کے حوالے کرنے سے متعلق قرارداد منظور کر لی گئی۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا کہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں سیندک معاہدے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ قدرتی معدنیات ہمارے صوبے کا اہم ترین اثاثہ ہیں، جن کے فیصلوں سے متعلق صوبائی حکومت خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی ایل، سیندک اور ریکوڈک سے متعلق ہونے والے معاہدوں پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔ وفاقی سطح پر ہونے والے غیر ذمہ دارانہ معاہدوں سے متعلق نقصان ہمیں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل رکن اسمبلی ثنا بلوچ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک کا شمار دنیا کے سب بڑے اور سیندک کا شمار تیسرے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ ان مقامات میں 48 سے زائد اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں جن میں ایسی معدنیات بھی شامل ہیں جن کی قیمت فی کلو 6 کروڑ روپے تک ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیندک اور ریکوڈک سمیت دیگر معاہدوں کو ازسر نور دیکھا جائے۔ اس موقع پر دیگر ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ معاہدوں کو اسمبلی میں لانے کیلئے کمیٹی بنائی جائے اور اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی ہو جو وفاق میں جا کر ان معاہدوں پر بات کرے۔

مزیدخبریں