“Nothing is more political in Pakistan than Religion”
’یعنی پاکستان میں مذہب سے زیادہ کچھ بھی سیاسی نہیں ‘
مولانا کے آزادی مارچ سے لیکر خان صاحب کی ریاست مدینہ کی کہانی اسی ایک جملے میں پنہاں ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک جتنا مذہب کو سیاست کیلئے استعمال کیا گیا اتنا سیاسی شعور یا مذہبی ہم آہنگی کیلئے استعمال نہیں کیا گیا۔
سب سے پہلا مذہبی کارڈ پاکستان بنانے کیلئے کھیلا گیا۔ دو قومی نظریہ کی رو سے مسلمانوں کیلئے پاکستان اور ہندووٗں کیلئے بھارت بنا دیا گیا لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ قائد اعظم نے آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں تقریر کے دوران مذہب اور سیاست کو الگ کر دیا اور کہا کہ
’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں ‘۔
اس تقریر نے دو قومی نظریہ کی نفی کی اور ایک سیکولر ریاست کا عندیہ دیا مگر قائد کی خراب صحت ان الفاظ کے عملی نفاز میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ ان کی رحلت کے بعد ریاست مذہبی انتہاء پسندوں کے ہتھے چڑھ گئی اور یکے بعد دیگرے مذہب کو سیاست کے کھیل میں شطرنج کی طرح کھیلا گیا اور اس کہانی میں جیت اسی کی ہوئی جس نے مذہب کو مہرہ بنا کر بازی اپنے نام کی۔
لیاقت علی خان کے دور اقتدار میں ایک ہندو وزیر قانون اور آئین ساز اسمبلی کے قائم مقام چئیرمین جگندر ناتھ منڈل سرکاری دورے پر بھارت روانہ ہوئے مگر واپس نا آئے۔ اور بعد میں اپنا استعفی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھیجتے ہوئے اس میں جو وجوہات بیان کیں اس میں ریاستی معاملات میں مذہب کا استعمال اور مسلمانوں کےعلاوہ دیگر مذاہب کیساتھ متعصبانہ سلوک بنیادی نقطہ قرار دیا گیا۔
آئین سازی کے عمل میں قرار داد مقاصد ریاستی معاملات میں مذہب کی مداخلت کا سبب بنا۔ اس کے بعد سے اب تک کی ساری سیاست مذہب کے گرد گھومتی ہے۔
پاکستان بننے کی پہلی تین دہائیوں میں مرتب کئے جانے والے تینوں آئین سیاست میں مذہب کے استعمال کے جواز بنے۔ آئین سازی میں قانون دانوں کی بجائے علماء کا کردار کلیدی رہا۔ ایوب خان نے باسٹھ کے آئین میں ردوبدل کی اور قانونی اصطلاحات کو ترجیح دی مگر آخر میں انہیں بھی اپنے اقتدار کو طوالت دینے کیلئے سر خم تسلیم کرنا پڑا اور ایک ترمیم کے ذریعے ملک کو جمہوریہ کی بجائے اسلامی جمہوریہ بنا دیا گیا۔
1973 ء کا آئین مرتب کرتے وقت مذہبی لوگ بہت زیادہ طاقت ور ہو گئے تو پیپلز پارٹی نے انکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے آئین کو ایک مکمل مذہبی شکل دی اور اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کیلئے اس میں ترامیم کیں۔ انہوں نے ایک ہی وقت میں سوشلسٹ، ڈیموکریٹ اور اسلامی لبادہ اوڑھنے کی کوشش کی مگر پی این کی صورت دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی تحریک جو بعد میں نظام مصطفی تحریک بن گئی کے نتیجے میں سیاست میں مذہب کو استعمال کرنے والے سب سے بڑے رہنماء جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء نے جنم لیا۔
جنرل ضیاء نے نا صرف مذہبی بلکہ مسلکی انتہاء پسندی کو فروغ دیا۔ اپنے اقتدار کو جائز قرار دینے کیلئے انہوں نے جو شاطرانہ حربہ استعمال کیا، شاید تاریخ میں کسی کیا ہو ۔ریفرنڈم کے ذریعے اپنے غیر آئینی اقدام کی توثیق کیلئے انہوں نے بیلٹ پیپر نکالا جس میں عوام الناس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ انہوں نے سیدھا مسلمانوں کی مذہبی نبض پر ہاتھ رکھا جس سے انکے اقتدار کوایک قانونی جواز ملا۔
ضیاءلحق کے دور میں ان کی سیاسی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کو کفر کے فتوے لگا کر اٹھایا جاتا رہا اور اسی مذہبی انتہاء پسندی کی آڑ میں افغانستان میں روسی فوجیوں سے لڑنے کیلئے جہادی پیدا کئے گئے اور امریکی ڈالرز کی امداد سے ملک مذہبی آگ کی جنگ میں دھکیلا جاتا رہا۔ جن جن لوگوں نے اس عمل کی مخالفت کی انہیں روس کا ساتھی، کیمونسٹ یا دہریہ قرار دے کر ان پر ظلم کیا جاتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی مرتبہ سیکولرازم ( جس کا مطلب سیاست میں مذہب کے استعمال کی مخالفت کرنا ہے) کو لادینیت کے معنی دیئے گئے اور آج تک بہت سے لوگ اسکو لا دینیت ہی تصور کرتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں بینظیر نےافغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے غیر اسلامی اقدارکی حامل خاتون وزیر اعظم ہونے کے فتوؤں سے جان چھڑائی۔ مسلم لیگ جو کہ ضیاء کی باقیات سے مل کر بنائی گئی نے بھی بھر پور مذہبی کارڈ کھیلے۔ نواز شریف نے خود کو امیرالمومنین بنوانے کیلئے پندرہویں آئینی ترمیم پیش کی جو پاس نہ ہو سکی۔
بعد ازاں کیپٹن صفدر کی صورت ایک سچا بریلوی، مرحوم عباس شریف کی صورت سچا دیو بندی اور حسین نواز کی صورت سعودی ہمنوا تیار کیا گیا تا کہ انکی تمام مسالک سے بنی رہے۔
مشرف دور میں پہلی دفعہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں کامیابیاں سمیٹنا شروع کیں۔ مولانا فضل الرحمن مشرف کے اقتدار کے ساتھی رہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2003ء کے انتخابات میں صوبہ سرحد ( خیبر پختونخواہ) میں کامیابی سمیٹی جس سے وہ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی مذہبی پارلیمانی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔
عمران خان جو مغرب طرز جمہوریت کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے، انہوں نے بھی کامیابی سمیٹنے کیلئے مذہبی کارڈ کا بھر پور استعمال کیا۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ پر لگنے والے مذہبی الزامات کو بھر پور سپورٹ کیا اور انتخابات کے دوران ن لیگ پر مذہب کی بنا پر تنقید کی۔ خان صاحب نے لبرلزکو راضی رکھنے کیلئے ڈی جے بٹ اور مذہبیوں کو راضی رکھنے کیلئے ایاک نعبد و ایاک نستعین اور ریاست مدینہ کا سہارا لیا۔ خستہ حال معیشیت ، مہنگائی اور بے روزگاری میں پھسے عوام کو لالی پاپ دینے کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی بجائے مسلمان لیڈر بن کر تقریر کی۔ تا کہ عوام اتحاد بین المسلمین والی تقریر کی روٹی خرید کر کھا سکیں۔
مذہب کا سیاست میں سب سے زیادہ استعمال ان نامعلوم طاقتوں نے کیا جنہوں نے کسی بھی حکومت کا تختہ الٹانے کیلئے ملا برادر فورس تیار کی جو کسی بھی جماعت پر مذہب کی بنیاد پر الزام لگاتے، دنگا فساد کرتے، عوام میں یہ باور کروانے میں کامیاب ہوتے کہ یہ پارٹی غیر اسلامی اصولوں پر چلتی ہے۔ اور جیسے ہی اس پارٹی کی مقبولیت کم ہوتی ہے اس ملا برادر فورس کا کام خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور نئی حکومت سے نمٹنے کیلئے پھر سے ایک نئی فورس تیار کی جاتی ہے۔ پی این اے کی تحریک، تحریک لبیک اور تحریک منہاج القرآن اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں جنکا شارٹ ٹرم استعمال بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے زوال کا سبب بنا۔
پاکستان میں کسی بھی لیڈر کی انتظامی کارکردگی کی بجائے مذہبی کارکردگی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ کون سا لیڈرکتنے حج کرتا ہے؟ اسلامی یا غیر اسلامی لباس پہنتا ہے؟ کون کیسے نماز پڑھتا ہے ؟ کون لڑکیوں کے ساتھ تصویریں بناتا ہے؟ اور کون عالم اسلام کی بات کرتا ہے؟ جیسے سوالات اسکی پالیسی سازی اور کارکردگی سے کہیں زیادہ اہم سوالات ہیں۔ اسی لئے تمام سیاسی لیڈران خود کو دوسروں سے زیادہ متقی، پر ہیز گار اور نمازوں کے پابند جتلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر کوئی اسی کوشش میں ہے کہ وہ خود کو دوسرے سے بہتر مسلمان ثابت کرے کیونکہ پاکستان میں مذہب میں سیاست اور سیاست میں مذہب وہ واحد حل ہے جو کہ لیڈرز کی باقی تمام خامیوں کو پس پشت ڈٓالتی ہے۔