اس درخواست میں صوبائی حکومت کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ٹی ایل پی سربراہ کو رہا کرنے کا جو فیصلہ کیا اس میں قانونی تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں سعد رضوی کے چچا کو فریق بنایا گیا ہے۔
حکومتی درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو اس اہم کیس سے متعلق تفصیلی ریکارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ سعد رضوی کی نظر بندی کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔ اس لئے عدالت عظمیٰ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے یکم اکتوبر کو سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دیدیا تھا۔ اس کے بعد 9 اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر لاہور نے بھی ان کی رہائی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر کے حکم میں ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کے وفاقی جائزہ بورڈ کے حراست کے حوالے سے لیے گئے پہلے دو فیصلوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع کے لیے بورڈ کے سامنے 29 ستمبر کو ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور بورڈ نے 2 اکتوبر کو ٹی ایل پی سربراہ کی حراست کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی تھی۔
سعد رضوی کی نظر بندی پر بات کی جائے تو اسے 10 جولائی کو ختم ہونا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جائزہ بورڈ نے محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے انھیں مزید نظر بند رکھنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر ٹی ایل پی سربراہ کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو ان کی فوری طور پر رہائی عمل میں لائی جائے۔
تاہم ڈپٹی کمشنر لاہور نے انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے سیکشن 11-ای ای ای کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے سعد رضوی کو مزید 90 دنوں کیلئے نظر بند کر دیا تھا۔
اس نظری بندی کیخلاف سعد رضوی کے چچا نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ نظر بندی میں توسیع کا حکومتی فیصلہ بدنیتی ہے۔
خیال رہے کہ سعد رضوی کو 12 اپریل 2021 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں نے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر ملک گیر دھرنے میں تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ناصرف عوامی جان و مال کو نقصان پہنچایا بلکہ سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر بھی حملے کئے تھے۔