آریان کے وکلا نے ایک بار پھر عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔ اس پر 13 اکتوبر کی سماعت مقرر کی گئی ہے۔ اس سے پہلے آرین خان کی ضمانت عرضی میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں خارج ہوچکی ہے۔
خیال رہے کہ عدالت سے ضمانت نہ ملنے کے بعد آریان خان کو جمعہ کو آرتھر روڈ جیل بھیج دیا گیا تھا۔ منمن دھمیچا سمیت دو خواتین اس وقت بائیکولا جیل میں قید ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو جیل میں کوئی خصوصی سہولت نہیں ملے گی۔
جمعہ کو ہوئی سماعت میں ایڈیشنل چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ آر ایم نیرلیکر نے کہا تھا کہ آریان خان، منمن دھمیچا اور ارباز مرچنٹ کی درخواست ضمانت سماعت کی اہل نہیں ہے۔
انسداد منشیات کے ادارے کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے ایڈیشنل سالسٹر جنرل انل سنگھ نے بھی ملزموں کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے پہلے کے کئی احکامات کا ذکر کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ ان پر سماعت کرنا مجسٹریٹ کا اختیار نہیں ہے اور این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت سبھی معاملوں کی سماعت کسی خصوصی عدالت کو کرنی چاہیے۔
ایڈیشنل سالسٹر جنرل نے عدالت میں کہا تھا کہ آریان خان کا تعلق بااثر خاندان سے ہے اور اگر انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تو وہ ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آریان خان اور شریک ملزم انچت کمار کے درمیان واٹس اپ چیٹ پر ہوئی بات چیت فٹبال کے بارے میں نہیں بلکہ بڑی مقدار کے بارے میں تھی۔ آریان خان کے وکیل ستیش مانشندے نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ بات چیت فٹبال کے بارے میں ہے۔
وکیل مانشندے نے جمعہ کو ترک دیا تھا کہ مجسٹریٹ کی عدالت کے پاس ضمانت عرضی پر فیصلہ سنانے کا حق ہے اور اس کا کردار ملزم کو صرف حراست میں بھیجنے تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر اس عدالت کو میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملتا تو اس کے پاس مجھے رہا کرنے کی طاقت ہے۔
وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ این سی بی کو آرین خان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، جس سے کوئی سازش ثابت ہوسکے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک خصوصی سماجی درجہ رکھنے والے ملزم کے لئے جیل میں رہنا قابل توہین ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا، ’کیونکہ میرا خاندان بااثر ہے، صرف اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ میں ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کروں گا‘۔
عدالت نے دلیلیں سننے کے بعد ضمانت عرضی صرف یہ کہتے ہوئے خارج کردیں کہ یہ سماعت کے اہل نہیں ہے۔