ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پرویز مشرف میں سے ہمارا ہیرو کون ہے اور ولن کون؟

11:48 AM, 11 Oct, 2022

بخت منیر
18 مٸی 1974 کو جب بھارت نے آپریشن سماٸلنگ بدھا (Smiling Buddha) کے کوڈ نام سے پہلا نیوکلیٸر تجربہ کیا تو 1971 میں ہندوستان کے ہاتھوں پاکستان کے دولخت ہونے پر رنجیدہ اور افسردہ ہونے والے پاکستانی سپوت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بے چینی انتہا کو چھونے لگی۔ وہ باقی ماندہ پاکستان کو محفوظ بنانے کے مشن پر پہلے ہی لگ گئے تھے۔ انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے روابط تیز کیے اور پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ یوں انہوں نے ہالینڈ میں ایک سب کنٹریکٹر کمپنی 'یورینکو' میں اپنی نوکری کو خیرباد کہہ کر اس سے کٸی گنا کم تنخواہ پر پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کو ترجیح دی۔ 2003 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹر اے کیو خان پر یورینیم دیگر ممالک کو فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تو ہمارے بہادر کمانڈو اور مشہور زمانہ 'امریکی کال' پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے سابق صدر پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبد القدیر خان پر دباؤ ڈالتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن پر ان سے معذرت کروائی۔ اس کے بعد ان کے خلاف باضابطہ انکوائری کا آغاز کیا گیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان پر دباؤ ڈال کر اعترافی بیان دلوایا گیا اور انہیں 'اسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا گیا'۔

قاٸد اعظم کے بعد اگر پاکستانیوں نے کسی شخص کو دل سے عزت دی اور ان پر محبتیں نچھاور کی ہیں تو وہ ہماری قومی سلامتی کی علامت، عظیم ساٸنسدان، عظیم انسان اور ایٹمی پروگرام میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایسا ہیرو ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں بستا ہے لیکن ایک انٹرویو میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر انہوں نے اس خدمت کو زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا قرار دیا۔ وہ اس میں حق بجانب بھی تھے کیونکہ جو غدار ثابت کرنے کی کمپین ان کے خلاف چلی وہ ان کی حب الوطنی کی توہین تھی اور ان کو سکیورٹی کے نام پر قید کیا گیا۔ جو سلوک اس ملک پر قابض ٹولے نے اس کے ساتھ کیا وہ پچھتانے کے علاوہ کونسا آپشن دیتا ہے؟

اس کمپین کا سرپرست ایک اقتدار پرست اور حب الوطنی کا ٹھیکے دار جرنیل پرویزمشرف تھا۔ محسن پاکستان پر بہت سارے دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی لگایا کہ فلاں جگہ پر اتنی پراپرٹی ہے اور اتنی ہے اور انہوں نے ایک نجی چینل سے انٹرویو میں ان مذکورہ جاٸیدادوں کو گورنمنٹ آف پاکستان کو عطیہ کر دیا لیکن کوٸی جرات کر سکتا ہے کہ پرویز مشرف سے پوچھے کہ ایک فوجی افیسر کی کتنی تنخواہ ہوتی ہے جس میں آپ نٕے 8 پراپرٹیز پاکستان میں خریدیں جن کی کل مالیت تقریباً 780 ملین روپے ہے؟
کوٸی عدالت سے غداری کے مرتکب مجرم پرویز مشرف سے پوچھ سکتا ہے کہ آخر ایک فوجی افسر کی تنخواہ میں لاتعداد ملکی اور غیر ملکی اکاؤنٹس کیسے بھر سکتے ہیں کیونکہ پرویز مشرف کے غیر ملکی اکاؤنٹس میں 20 ملین ڈالرز اور ملکی اکاؤنٹس میں 1.25 ملین روپے پائے گئے اور یہ سب اعداد و شمار الزامات نہیں بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق ہیں جو ایف آٸی اے نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جمع کراٸی گئی تھی۔

کسی کی جرات ہے جو عدالتوں سے مفرور اور سزا یافتہ فوجی آمر پرویز مشرف کی لندن اور دبئی میں پراپرٹیز پر بات کرسکے؟ کوٸی جرنیل مشرف سے پوچھ سکتا ہے کہ وہ ایک فوجی افسر ہوتے ہوئے ارب پتی کیسے بن گیا؟ سویلینز کے لیے بہادر بننے والے اختیارات کا استعمال کرنے والے ایک سزا یافتہ مجرم پرویز مشرف کو سزا دینے والے فیصلے پر عمل درآمد کروا سکتے ہیں؟

اس قوم کے ہیرو کارگل کی جنگ ہارنے والے اور اپنے ہی ملک پاکستان کو فتح کرنے والے جرنیل پرویز مشرف نہیں بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جنہوں نے ایٹم بم بنایا اور جس کی وجہ سے آج ایک ارب سے زیادہ بھارتیوں کی دھمکیوں کے باوجود پاکستانی پرسکون رہتے ہیں۔

اس قوم کے ہیرو اپنے ہی ملک کو فتح کرنے والے جنرل ضیاء الحق نہیں جس نے اسی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی جس نے ایٹم بم بنانے کے لیے ڈاکٹر قدیر خان کا ساتھ دے دیا اور تاریخی جملہ کہا تھا کہ گھاس کھاٸیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔

اس بد نصیب قوم کوملنے والے بد نصیب ہیرو اللّہ تعالی کا اس قوم پر خاص فضل ہے ورنہ ہم تو اس قابل تھے ہی نہیں اور ناشکرے اتنے کہ جیسا اپنے ہیروز کے ساتھ کیا وہ تو کوٸی دشن ملک کے ہیرو کے ساتھ بھی نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب جن لوگوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا ان پر پھول نچھاور کیے گئے۔ ہم پاکستانیوں نے ہمیشہ اپنے ہیروز کو ذلیل کیا اور ولنز کو اپنا ہیرو بنایا جیسا ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کیا۔ یہ کوٸی نئی بات نہیں کیونکہ ملک توڑنے والا جرنیل یحییٰ خان ہمارا ہیرو ہے جبکہ بچا کھچا ملک تعمیر کرنے والے بھٹو کو ہم نے ولن بنا دیا۔

ہم کتنے کنفیوژڈ ہجوم کا حصہ ہیں۔ ہم آج تک امریکہ کو للکارنے والے بھٹو جنہیں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے قتل کی دھمکی دی تھی اور ان کو عدالت کے ذریعے قتل کرنے والے جرنیل ضیاء الحق میں ہیرو اور ولن کو پہچان نہ سکے۔

میں جاننا چاہتا ہوں آخر طاقت اور اقتدار کے اس کھیل اور اس 75 سالہ خود ساختہ تاریخ کی اس پرپیچ کہانی میں ہیرو کون ہے اور ولن کون؟ آج کئی جرنیلوں پر بھاری اور مغربی دنیا کے ولن جبکہ مشرق اور امت مسلمہ سمیت پاکستانیوں کے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آج پہلی برسی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا۔
مزیدخبریں