اس شہر میں پائی جانے والی تاریخی غاروں کو لرے کی غاریں کہا جاتا ہے۔ ان غاروں کو اگست 1878 میں پانچ افراد نے دریافت کیا تھا۔ غاروں کے ایک سرے سے داخل ہو کر غاروں کے اندر ڈیڑھ میل تک پیدل چل کے دوسرے سرے سے انسان باہر نکل آتا ہے۔ غاروں کے اندر مصنوعی نصب کردہ روشنیوں اور ہوادار نظام کے علاوہ باقی سب کچھ قدرتی ہے اور یہ سب دیکھ کر انسان قدرت کے شاہکار پر بے اختیار عش عش کر اٹھتا ہے۔
ان غاروں میں کبھی چڑھائی اور کبھی اترائی دیکھنے کو ملے گی۔ اگر چلتے جائیں تو ایک مقام پر ایک چھوٹا سا پانی کا تالاب دیکھنے کو ملے گا جس کے اندر بے شمار رائج الوقت سکے اور ڈالرز پڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس تالاب کو وشنگ ویل یعنی منتوں (مرادوں) والے کنویں کا نام دیا گیا ہے۔ ایسا رواج یا عقیدہ برصغیر میں تو عام ہے جہاں اکثر لوگ زندہ بابے کے آستانے یا مردہ بزرگ کے دربار پر جا کر مرادیں مانگتے ہیں اور نقدی کی صورت میں نذرانے دے کر آتے ہیں۔ مگر یہاں ان لوگوں کا ایسا اعتقاد دیکھ کر حیرانی ہوئی، کیونکہ ان کے مطابق اس کنویں میں نقدی پھینک کر کوئی منت مانگیں یا دعا کریں تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ اب تک اس مد میں انتظامیہ لاکھوں ڈالرز اکٹھے کر چکی ہے اور اس کے بقول یہ رقم وہ فلاحی کاموں پر خرچ کرتی ہے۔
جب لگ بھگ ڈیڑھ میل کا چکر مکمل کرنے کے بعد زیر زمین غاروں کے سلسلے میں ایک سرے سے داخل ہو کر دوسرے سرے سے باہر نکلیں تو ان کے ساتھ ہی انیسویں اور بیسویں صدی کی پرانی گاڑیوں کا عجائب گھر ہے جن کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ گاڑیاں پائیداری اور دیدہ زیبی میں اپنی مثال آپ تھیں مگر ان کا حجم موجودہ گاڑیوں سے بڑا اور رفتار کافی کم ہوتی تھی۔
پرانی گاڑیوں کے عجائب گھر کے ساتھ ہی روزمرہ استعمال کی اشیا سے متعلق لگ بھگ ایک سو سے دو سو سال پرانی گھریلو اشیا رکھی تھیں۔ جن کو دیکھ کر انسان زمانہ قدیم میں پہنچ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرانے زمانے کی اشیا سادگی، دیدہ زیبی اور مضبوطی میں اپنی مثال آپ تھیں۔ غرض الفاظ میں تمام اشیا کااحاطہ کرنا مشکل ہے لیکن اگر یہ کہوں کہ لرے جیسا چھوٹا سا شہر ان تاریخی اشیا کی وجہ سے اپنے اندر قدرت کی کاریگری سموئے ہوئے ہے تو بے جا نہ ہو گا۔