قانون پر عمل درآمد میں ناکامی؛ 1 کروڑ سے زائد بچے چائلد لیبر پر مجبور ہیں

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چائلڈ لیبر کی شرح 14 فیصد بتائی جاتی ہے۔ جبکہ یونیسف کے ایک سروے کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں 5 سال سے 17 سال کے درمیان 80 لاکھ سے زائد بچوں میں سے 11 فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں۔

02:48 PM, 11 Oct, 2024

اسما زاہد

کراچی کے علاقے شیر شاہ سے تعلق رکھنے والا 12 سالہ بچہ شاہد مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے ہر روز ایک گیراج کا رخ کرتا ہے جہاں اسے پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ اس بات سے بے خبر کہ ملک میں چائلڈ لیبر کے قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کے کام پر پابندی ہے۔

شاہد بتاتے ہیں کہ میری بھی شدید خواہش ہے کہ دوسرے بچوں کی طرح صبح اٹھ کر کسی تعلیمی درسگاہ کا رخ کروں، مگر غربت کے آگے شاہد بے بس ہے اور صبح سکول جانے کی بجائے ایک گیراج کا رخ کرتا ہے جہاں محنت مزدوری کرکے اتنا کماتا ہے کہ اپنے باپ کا معاشی بوجھ ہلکا کر سکے۔

12 سالہ شاہد کے والد کہتے ہیں کہ معاشی ناہمواری کی وجہ سے میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکوں۔ انتہائی دکھ بھرے لہجے میں انہوں نے بتایا کہ میں بھی پڑھ لکھ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہوں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کے بعد بھی میرے بچوں کو مزدوری کرنی ہے اور میرے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کروں۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ میرے چار بچے ہیں اور میری دلی خواہش ہے کہ دو بچوں کو تعلیم دلا سکوں مگر ہم غربت کے آگے مجبور ہیں۔

چائلڈ لیبر ایکٹ 

پاکستان چائلڈ لیبر ایکٹ 1991 کے مطابق ملک میں 14 سال سے کم عمر بچوں کے سخت کاموں پر پابندی ہے۔ چائلڈ لیبر ایکٹ 14 سے 18 سال تک کے بچوں کے لئے کام کرنے کے حالات کو منظم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون موجود ہے، جن میں ملازمت کی عمر 14 سال مقرر کئی گئی ہے۔

قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟

پاکستان میں چائلڈ لیبر پر پابندی کا قانون تو بن چکا ہے مگر اس پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں کم عمر بچے محنت مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گیراجوں، کمپنیوں اور دیگر جگہوں پر ہزاروں ایسے بچے ملیں گے جو 14 سے 18 سال تک کے ہیں۔

پاکستان بھر میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد 20 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چائلڈ لیبر کی شرح 14 فیصد بتائی جاتی ہے۔ جبکہ یونیسف کے ایک سروے کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں 5 سال سے 17 سال کے درمیان 80 لاکھ سے زائد بچوں میں سے 11 فیصد بچے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے 88 فیصد چائلڈ لیبر یعنی مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ 

اس کا مطلب ہے کہ صوبے کے ہر 100 بچوں میں سے 11 بچے مختلف جگہوں پر مزدوری کر رہے ہیں جبکہ ان مزدوری کرنے والے بچوں میں 73 فیصد سے زائد مشقت کی مزدوری کر رہے ہیں۔

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر سلطان محمد کے مطابق بلوچستان میں 15 ہزار سے زائد کم عمر بچے تعمیراتی مقامات، کوئلے کی کانوں، کوڑا اٹھانے اور گاڑیوں کے گیراج میں کام کر رہے ہیں۔ ان بچوں کے خوابوں کو غربت نے کچل دیا ہے اور وہ انتہائی خوفناک زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سکول جانے کی عمر کے کم و بیش دو کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے، جس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کم ازکم ایک کروڑ تک بچے چائلڈ لیبر کر رہے ہوں گے۔ اس صورت حال میں معاشی کمزوریوں سے نمٹنا، تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانا، قوانین کا نفاذ، اور بیداری پیدا کرنے جیسے اہم اقدامات حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہیں۔

اس حوالے سے جب ہم نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ معاشی ناہمواری، غربت، مہنگائی سمیت تعلیم کی کمی کی وجہ سے بچے مزدوری پر مجبور ہیں جبکہ اکثر دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے بچے سکولوں سے باہر ہوتے ہیں اور جس عمر میں بچوں کو سکول جانا ہوتا ہے وہ اسی عمر میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

ایڈووکیٹ عدنان کھتری نے بتایا کہ لوگوں میں چائلڈ لیبر کے قانون کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ صنعتی زون میں کام کے حوالے سے چائلڈ دوست ماحول کا نہ ہونا، لیبر ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن اور پارلیمنٹیرینز کی اس حوالے سے عدم دلچسپی کی وجہ سے چائلڈ لیبر پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ملک میں مؤثر قانون تو موجود ہے مگر قانون پر عمل درآمد ہونا ایک سوالیہ نشان ہے جس کی وجہ سے ملک میں چائلڈ لیبر میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ معاشی ناہمواریوں کے ساتھ مہنگائی میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کی وجہ سے متوسط طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتے جس کی وجہ سے وہ چائلڈ لیبر کی طرف تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں۔

 ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چائلڈ لیبر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ حکومتیں اس بارے میں منصوبوں کے اعلانات تو کرتی ہیں مگر چائلڈ لیبر کے خلاف مؤثر اقدامات کے لیے عملی کوششیں کم ہی کی جاتی ہیں۔

ایڈووکیٹ عدنان کھتری نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ سکول سے باہر بچوں کو سکول میں لانے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، جبکہ تکنیکی ادارے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ میٹرک کرنے کے بعد بچے ہنر سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کے حوالے سے مؤتر قانون سازی کے ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے جبکہ غربت میں کمی لانے کے لئے صنعتی زون قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ 

مزیدخبریں