معصوم لوگوں کو سڑک کے کنارے قتل کردیا گیا سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تو کیا ہوا امریکہ میں بھی تو کالوں کو مارا جا رہاہے... ,یہاں چھوٹے بچوں کو مدرسوں سکولوں اور محلوں میں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے .. او بھائی پاگل ہو.. تو کیا ہوا امریکہ میں بھی تو بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے.....
یہاں مذہبی منافرت بہت زیادہ ہے ہم دوسرے مذاہب تو کیا اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے دوسرے فرقوں کو بھی برداشت نہیں کر پاتے ...تو کیا ہوا انڈیا کے ایجنٹ ہو کیا انڈیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے نظر نہیں آتا؟....
بھائی دھرتی ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے جہاں انسان جنم لیتا ہے اس کے ذرے زرے سے انسان کو پیار ہوتا ہے, وہاں کے لوگوں سے لگاؤ اور محبت ہوتی ہے انسان چاہتا ہے کہ وہاں خوشحالی آئے لوگ خوش رہیں ہنستے کھیلتےرہیں, زندگی کے مزے لوٹیں , لیکن اگر آپ اپنے ملک میں جاری نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی دھرتی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں نظام مقدس نہیں ہوتا... آواز بند کر بدکردار , غدار,غدار....
بھائی حب الوطنی اور جنگوں کے نام پر بہت سا قیمتی سرمایا, قوم کا پیسہ اور بجٹ چند جیبوں میں جا رہا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے حب الوطنی کے نام پر قوم کا استحصال نہیں ہونا چاہیے یہاں کا ہر فرد ہر انسان ایک سے بڑھ کر ایک محب وطن ہے خواہ وہ پولیس میں ہو, استاد ہو, مزدور ہو,آفیسر ہو ہو یا فوجی ہو .... یہ ملک دشمن طاقتوں کا ایجنٹ لگتا ہے یہ کسی سازش کا حصہ ہے چند ٹکوں میں بک گیا ہے...
مذہب انسان کو انسانیت سکھاتا ہے لیکن یہاں مذہب کا استعمال لوگوں کو تقسیم کرنے, جاھل پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے , ماضی قریب میں مذہب کا نعرہ لگا کر پاکستان کی نوجوان نسل کو عالمی جنگوں کی بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا , مذہب کا نام لے کر ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو عوام کا تحفظ نہیں بلکہ چند لوگوں کے سرمائے اور مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں.... خدا کے لئے, رسول کے لئے, پاکستانیوں کے لئے ان تمام باتوں کو سمجھیں...
ہو نہ ہو یہ کوئی کافر ہے کافر.. کافر... کافر ...
تین بچوں کی ماں کو اس کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا کیونکہ وہ کار میں اکیلی ان کو لے کے سفر کر رہی تھی اور ہمارے محافظوں کے سردار کا کہنا ہے کہ عورت رات کو اکیلی نکلی ہی کیوں تھی...ایسا کہاں ہوتا ہے ؟؟ کوئی جواب ہے؟؟
شاعر "رحمان فارس" کا نوحہ
انسانیت کا ریپ:
گھوم رہے ہیں رالیں ٹپکاتے ظالم حیوان
رانوں میں لٹکائے اپنی وحشت کا سامان
ان کے ذہن میں روز و شب ہے صرف یہی اک دھیان
کوئی عورت ہاتھ آجائے، زندہ یا بے جان
زندہ باد، اے اسلامی جمہوریہ پاکستان !
اس بستی کے لوگ تو بِلّی کو “سہلاتے” ہیں
ٹافی کھاتی چھوٹی بچی کو کھا جاتے ہیں
قبر سے مُردہ عورت تک کو بھی لے آتے ہیں
اس بستی میں چکلوں جیسے ہیں اب قبرستان
زندہ باد، اے اسلامی جمہوریہ پاکستان !
یہاں بھکارن بھی آئے تو ہنس کر بولیں گے
آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس کا جسم ٹٹولیں گے
اور خیالوں میں اُس کا ہر پردہ کھولیں گے
اک سِکّہ دے کر مانگیں گے جسم کا ہر امکان
زندہ باد، اے اسلامی جمہوریہ پاکستان !