اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ کو خط پہنچانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو سید علی گیلانی کے حراستی قتل کی فوری تحقیقات کا حکم دینا چاہیے جو کہ کشمیری رہنماؤں کیے زیر حراست قتل کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔
اس موقع پر کمیٹی کے رکن سینیٹر سرفراز بگٹی کے علاوہ حریت کانفرنس کے رہنما فیض نقشبندی اور فاروق رحمانی بھی موجود تھے۔
شہریار خان آفریدی نے کہا کہ حریت رہنماؤں کو جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی پیشہ وارانہ حکومت کی طرف سے کووڈ 19 وبا کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے، اگر اقوام متحدہ اشرف خان سہرائی کے حراستی قتل کی تحقیقات کرتی تو گیلانی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اب ہمیں خدشہ ہے کہ اے پی ایچ سی کے نئے سربراہ مسرت عالم بھٹ، سید شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر قاسم فکٹو اور دیگر سمیت دیگر قید کشمیری رہنماؤں کو بھی اسی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔
شہریار آفریدی نے کہا کہ بھارتی حکومت نے تمام جدوجہد آزادی کے حامی کشمیری رہنماؤں کو مارنے کا ایک منصوبہ بنایا ہے اور علی گیلانی کا قتل دوسری ہائی پرافائل قتل ہے۔
انہوں نے کہا کہ علی گیلانی کے دیرینہ ساتھی اور جانشین تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف خان صحرائی کو بھی رواں سال کے شروع میں حراست میں قتل کیا گیا تھا، انہیں جان بوجھ کر بھارت کی جیل میں رکھا گیا تھا جہاں کووڈ 19 پھیلا ہوا تھا جبکہ بھارت میں لاکھوں لوگ مر رہے تھے۔
سید علی گیلانی کی وفات اور بھارت کا رویہ
مقبوضہ کشمیر میں جموں اور کشمیر کی علیحدگی کی تحریک کے سینئیر رہنما سید علی گیلانی کے جنازے کے حوالے سے تنازع پیدا ہوا تھا۔ کشمیری مزاحمتی سیاست کے آئکون سید علی گیلانی جن کی عمر 92 برس تھی یکم ستمبر کی شب سرینگر میں وفات پا گئے تھے اور ان کی تدفین 2 ستمبر کو علی الصبح کر دی گئی تھی۔ جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ بھارتی فورسز نے زبردستی کروائیں۔
اس حوالے سے بی بی سی نے لکھا کہ ڈاکٹر نعیم نے، جو کہ سید علی گیلانی کے بیٹے ہیں، کہا ہے کہ ’ہمیں اپنے والد کی آخری رسومات کو اسلامی طریقے سے ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ ہمارا حق تھا لیکن وہ ہم سے چھین لیا گیا۔ ہم اس کی وجہ سے بہت افسردہ ہیں۔‘
ڈاکٹر نعیم اور ان کے بھائی ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے۔