لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے وزیر ریلوے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنی زبان کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگلا الیکشن چوری کرنے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے وہی کام لیا جانا مقصود ہے جو آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر لیا گیا، اپوزیشن بالخصوص ہماری جماعت اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے واضح کردیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین دنیا کی کوئی بڑی اور جدید جمہوریت استعمال نہیں کررہی، تو حکومت کو کیا مسئلہ ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جادوگر کی جان اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ہے۔
ان کا کہنا بے لگام حکومتی وزرا الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کررہے ہیں، پہلے وہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو ٹارگٹ کررہے تھے، ان کی زبانیں بہت گندی ہیں اور وہ اپنی زبانوں کو لگام دیں۔
سعد رفیق نے کہا کہ شاید یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اصولی مؤقف اختیار کیا ہے اور اس صورت میں یہ سول سوسائٹی، وکلا اور سیاسی جماعتوں کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو دی گئی ان دھمکیوں کا نوٹس لیں اور ملکی اداروں کے دفاع اور حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ایسی دھمکیاں دے رہی ہے تو یہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں اور آواز بلند کریں۔ انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات کا منطقی جوابات دینے کے بجائے حکمران جماعت نے دھمکانے کا سہارا لیا۔
حکمراں پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی اصلاحات بل کو نامنظور کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے بل منظور نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی سول سوسائٹی اور انٹیلی جنس سمیت کوئی بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہونے والے انتخابات کو قبول نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں ان کی اکثریت جعلی ہے اور اگر یہ جعلی پر اسے منظور کرا بھی لیتے ہیں تو ایسی قانون سازی کو کون مانے گا؟ جب تک اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کیے بغیر کوئی کوئی قانون سازی اور اس کے نتیجے میں کوئی انتخابات ہوئے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی، نہ کوئی اسے مانے گا اور نہ کوئی اس اسمبلی کے اندر جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آتش فشاں کے دہانی پر نہ بٹھائیں، مدت چوری کرنے کے یے آپ پوری قوم کے ساتھ فراڈ کرنا چاہتے ہیں، یہ فراڈ قوم کے ساتھ پہلے ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا تھا۔ جب تک اصلاحات پر سیاسی اتفاق اور معاہدہ نہیں ہوتا، اس کے بغیر اس طرح کی تبدیلی کرنا جو دنیا میں کہیں نہیں چل رہی، وہ ناقابل قبول ہے، اگر حکومت آزاد امیدواروں دیگر کی بدولت بنائی گئی اپنی چھوٹی عددی اکثریت کی بنیاد پر یہ قانون منظور کرا لے گی تو یہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ کر لیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے اگلا الیکشن پاکستان کی اپوزیشن، عوام اور سول سوسائٹی کبھی قبول نہیں کرے گی۔
سعد رفیق نے وزیر ریلوے کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جن متعلقہ اداروں کی ذمے داری انصاف کی خدمت کرنا ہے انہیں چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن کے خلاف ان دھمکیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کریں۔