انہوں نے مزید بتایا کہ بھٹو صاحب کے جنوبی پنجاب کے ایک دورے کے موقع پر یہ پروفیسر صاحب ایک درخت میں چھپ گئے اور وہاں سے بھٹو پر چھلانگ لگائی۔ ظاہر ہے کہ بھٹو صاحب اس وقت بچ گئے لیکن پروفیسر صاحب کے نظریات آج تک وہی ہیں۔
اس سنسنی خیز ٹوئیٹ کے بعد بہت سے لوگوں نے ان سے یہ سوال کیا کہ آخر وہ پروفیسر صاحب کون ہیں۔ بہت سوں نے اندازہ بھی لگا لیا کہ ہو نہ ہو، یہ پروفیسر رسول بخش رئیس ہی ہیں۔ کیونکہ عائشہ صدیقہ نے بار بار ان کی طرف اشارہ کیا۔ مثلاً ان کا کہنا کہ یہ پروفیسر صاحب آج بھی عمران خان کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کو ناپسند کرتے ہیں، بھی رسول بخش رئیس صاحب کی طرف ہی اشارہ کرتا تھا کیونکہ رئیس صاحب نے عمران خان کے لئے اپنی پسندیدگی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے اپنی ناپسندیدگی کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
دیگر ٹوئٹر صارفین کی طرح سینیئر وکیل اسد جمال نے بھی اس ٹوئیٹ کے جواب میں یہی کہا کہ یہاں بات رسول بخش رئیس کی ہو رہی ہے۔
تاہم، کچھ دیر کے بعد عائشہ صدیقہ نے خود ہی suspense کو ختم کرتے ہوئے صحافی دانش زیدی کی ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے اس راز سے پردہ اٹھا دیا۔
بہت سے لوگوں نے اس حیرت انگیز الزام پر ان سے ثبوت اور شواہد کا تقاضہ کیا۔ تاہم، عائشہ صدیقہ نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات ٹوئٹر پر جاری نہیں کیں۔
لمز کے پروفیسر عمیر جاوید نے اس ٹوئیٹ کے جواب میں کہا کہ امید کرتا ہوں اتنے بڑے دعوے کے ثبوت موجود ہوں گے، جس پر عائشہ صدیقہ نے انہیں جواب دیا کہ یقیناً معزز دکھنے کے باوجود آپ 70 کی دہائی میں موجود نہیں ہوں گے، نہ ہی آپ جنوبی پنجاب کو جانتے ہیں۔
ندا کرمانی نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ کاش ہم لمز کے پروفیسر اتنے دلچسپ ہوتے جتنا لوگ ہمیں سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں نیا دور نے عائشہ صدیقہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل درست واقعہ ہے اور اس کے گواہان موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رسول بخش رئیس صاحب اس وقت ڈی جی خان کالج سے بی اے کر رہے تھے اور ان کے پرانے جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ نہ صرف جمعیت کے ایک فعال کارکن تھے بلکہ ان کے جذباتی پن کی وجہ سے انہیں رسول بخش ’بجلی‘ کہا جاتا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی کوئی ایف آئی آر موجود نہیں کیونکہ جب رسول بخش رئیس نے حملہ کیا تو انہیں موقع پر پکڑ کر جیالوں نے خوب پٹائی کی اور بعد میں چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے عینی شاہدین آج بھی موجود ہیں، جو اس دعوے کی گواہی دینے کے لئے سامنے آنے کے لئے بھی تیار ہیں۔
لمز کے مختلف پروفیسرز اور دیگر ٹوئٹر صارفین کی اس ٹوئیٹ کے جواب میں تنقید اور سوالوں پر ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی حیرانی والی بات قطعاً نہیں ہے کہ رسول بخش رئیس صاحب جمعیت کے کارکن رہ چکے ہیں، نہ ہی اس دور کے جذباتی ماحول میں کسی نوجوان سیاسی کارکن کا سیاسی مخالفین پر حملہ کرنا کوئی اچنبھے کی بات ہو سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ دور تھا کہ جب جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی ابھی اتنی مضبوط نہیں تھی اور اگر آپ کنونشن مسلم لیگ کے خلاف ہیں تو جنوبی پنجاب میں جماعت اسلامی ایک انتہائی بااثر سیاسی جماعت تھی اور ڈی جی خان کالج کے ایک طالبِ علم رسول بخش رئیس کا اس سے تعلق ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
نیا دور نے اس واقعے کی تصدیق یا تردید کے لئے پروفیسر رسول بخش رئیس سے بار بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے جواب موصول نہیں ہو سکا۔ ہمارا پلیٹ فارم ان کے لئے حاضر ہے اور اگر وہ کسی بھی موقع پر اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہیں گے، تو ان کے نکتہ نظر کو خبر میں شامل کر دیا جائے گا۔