دوسری میر داماد کے شاگرد ملا محمد جونپوری کی ’شمسِ بازغہ‘تھی۔ جن طلبہ کو تصوف کا شوق ہوتا وہ ان کے علاوہ ’فصوص الحکم‘ اور ’فتوحاتِ مکیہ‘ جیسی کتابیں بھی پڑھا کرتے تھے جن کے استادوں کی کمی نہ تھی۔
لکھنؤ کے شیعہ عالم سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) ابن سینا کے فلسفے اور ارسطو کی منطق کے مخالف نہیں تھے لیکن اپنے شاگردوں کو ملا صدرا کے خیالات کی پیروی سے روکتے تھے کیونکہ ان میں مکاشفے، الہام اور تصوف کی آمیزش تھی۔
دیسی حکیم بننے کا شوق رکھنے والے ’القانون‘ پڑھتے اور ریاضی میں دلچسپی رکھنے والے لوگ قدیم یونانی ریاضی دان اقلیدس کی ’خلاصۃ الحساب‘ پڑھتے تھے۔ چنانچہ جب اردو زبان رائج ہوئی تو ان کتابوں کے اردو تراجم بھی کر لئے گئے۔ لہذا دیوبندی مسلک کے معروف علما مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا مودودی نے ’اسفار اربعہ‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔
آج کل بھی بعض مدارس میں فلسفے کے نام پر یہی کچھ پڑھایا جا رہا ہے، جو دراصل معصوم اذہان پر مغالطات کی بارش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لفظ فلسفہ بنیادی طور پر یونانی لفظ ’فیلو صوفیا‘سے نکلا ہے، جو یونان میں پروان چڑھا۔ فیلو کے معانی دوست رکھنے اور پسند کرنے کے ہیں۔
کسی بھی فن کے ارتقا کو سمجھنے کیلئے اس کی اصطلاحات (terminology) اور پھر ان اصطلاحات کی جڑوں (etymology) کو سمجھنا بہت سود مند ہوتا ہے۔ یونانی فلسفہ میں کس صوفیا کو پسند کرنا مراد ہے، تو یہ جاننے کیلئے اس دور کے یونان کو سمجھنا ہو گا۔ فلسفے کا آغاز یونان کی دیومالائی داستانوں کے طور پر ہوا۔ پرانی تہذیبوں کی بعض دیومالائی داستانیں تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہو چکی ہیں۔ یونان کے علاوہ مصر، ہندوستان اور چین میں بھی مختلف دیومالائی داستانیں تحریر کی گئی تھیں کیونکہ ہر ملت میں سوچنے والے لوگ ہوتے تھے۔ ہر قوم کے تعقل و تفکر نے کچھ تحریروں کو وجود بخشا۔
ہندوؤں کو دیکھا جائے تو ان میں پہلے دور میں چار کتابیں سامنے آتی ہیں: ’اتر وید‘، ’اجر وید‘، ’سام وید‘ اور ’ریگ وید‘، اس دور کو وید دور کہتے ہیں۔ ان کتابوں میں کچھ پراکندہ داستانیں، نظمیں اور جملے ہیں۔
ایسی کہانیوں کو دیومالائی کہانیاں کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد پنڈت دور آیا جس میں مختلف پنڈت آئے جنہوں نے ان تحریروں کی شروحات لکھیں۔ یہ دیومالائی کہانیوں کی تفسیریں تھیں جو اب ہندو فلسفہ کہلاتی ہیں۔ اس کے بعد انت وید دور آتا ہے، یعنی پوسٹ وید دور یا ما بعد وید کا دور جس میں’اپنیشد‘کی شکل میں مختلف تحریریں جمع ہوئیں جن میں وحدت الوجود کا تصور سامنے آیا۔ پھر بدھ کا دور آتا ہے جس نے نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔ وقت گذرنے کے ساتھ افکار بدلتے رہتے ہیں۔
اسی طرح یونان کا فلسفہ یونان کے مذہب سے نکلا۔ ان کے کچھ دیوتا ہیں جیسے زیوس، کرونوس، دیونوس، الیکٹرا، وغیرہ۔ وہ کہتے تھے کہ الیکٹرا بارش اور گرج چمک کی دیوی ہے، دیونوس مستی اور شراب کا دیوتا ہے، ہرکولیس طاقت کا دیوتا ہے، اوقیانوس سمندر کا دیوتا ہے، ایتھنز نقاشی اور ہنر کی دیوی ہے۔ انکا اصول یہ تھا کہ ’الواحد لا يصدر عنہ الا الواحد‘، ایک دیوتا ایک کام ہی کر سکتا ہے۔ اس دیومالائی دور کے بعد ان کا فلسفہ بننا شروع ہوا۔ ان کے مختلف دیوی دیوتاؤں کے مندروں کے پنڈت آتے ہیں۔ جیسے ہیراکلتس، سقراط، افلاطون، ارسطو وغیرہ۔ انہوں نے مختلف خیالات پیش کئے۔ مثلا افلاطون اپنی کتاب ’سمپوزیم‘ (فارسی: مہمانی) میں ہم جنس بازی کو پسندیدہ فعل قرار دیتا ہے۔ یہ سکندر سے پہلے کے لوگ تھے۔
سکندر کے بعد ایک نیا دور مفتوحہ مصر میں شروع ہوا جب فکری سرگرمیوں کا مرکز مصر کا شہر سکندریہ تھا۔ مصر کے رہنے والے ستارہ پرست تھے اور ان کے ہندوستان سے تجارتی تعلقات بھی تھے، لہذا وہاں ہندوؤں کا وحدت الوجود کا تصور بھی پہنچ چکا تھا۔ یونانی افکار کی آمد سے سکندریہ میں نئے خیالات نے جنم لیا۔
یہاں سن 204 عیسوی میں فلوطین (plotinus) پیدا ہوا جس نے ’تاسوعات‘ نامی کتاب لکھی۔ اس نے یونانی دیومالا کو مشرق کا عارفانہ رنگ دے دیا۔ جب بنو عباس کے دور میں ان کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا تو عالم اسلام میں اس کا ردعمل بھی آیا جو علمِ کلام کہلایا اور اس کے حامی بھی پیدا ہوئے۔ چنانچہ امام جعفر صادق کے شاگرد ہشام ابن حکم نے یونانی فلسفے کی رد میں کتاب لکھی۔ اسی طرح فضل ابن شاذان کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے اسکی رد میں لکھا۔ شیخ مفید سمیت کئی علماء نے کلام پر کتابیں لکھیں۔
جب یہ فلسفہ عالم اسلام میں آیا تو عبدالمسیح نائمہ، ایک مسیحی پادری کی سرپرستی میں بنو عباس نے تراجم تیار کرائے۔ الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن رشد وغیرہ نے اس پر کام کیا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے الکندی کی قرآن کے بارے میں لکھی گئی کتاب کی مخالفت کی تھی۔ اسے مکتبِ مشا کہتے ہیں اور اس میں ارسطو اور افلاطون کے خیالات کی آمیزش تھی۔ اس کے ردعمل میں مکتبِ اشراق وجود میں آیا جس کے بانی شہاب الدین سہروری 1154ء میں پیدا ہوئے ۔ یہ افلاطون کے پیرو تھے اور افلاطون کے خیالات کو زرتشتی خیالات کے ساتھ ملا کر ایک نئے مکتب کے طور پر پیش کیا، جو تصوف کے زیادہ قریب تھا۔ 1165ء میں ابن عربی پیدا ہوئے جنہوں نے ہندو فلسفے کے مجموعے اپنیشد کے نظریہٴ وحدت الوجود پر تصوف کا رنگ چڑھایا۔
یہ سب حضرات سنی العقیدہ تھے، البتہ ابن سینا اسماعیلی شیعہ تھے۔ 1570ء میں ملا صدرا پیدا ہوئے، جن کا جنم تو ایک شیعہ خاندان میں ہوا تھا لیکن وہ جوانی میں تصوف کی طرف مائل ہو گئے۔ وہ ایک امیر خاندان کے چشم و چراغ تھے لہذا انکو مختلف موضوعات پر کتابیں اکٹھی کرنے میں دقت نہ ہوئی۔ انہوں نے ان کو ایک دائرة المعارف کی طرح اپنی کتابوں میں جمع کر دیا۔ ایک محقق کے بقول ان کے نوے فیصد خیالات اصل میں کسی پرانی کتاب سے نقل ہیں، جن کا حوالہ دینا انہوں نے مناسب نہ سمجھا، مگر وہ تصورات قدماء کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے تصورات میں سب سے زیادہ اہمیت ابن عربی کو دی اور مکاشفے و الہام کو بنیاد بنایا۔ یوں ایک تیسرا مکتب وجود میں آیا جسے ملا صدرا نے حکمتِ متعالیہ کا نام دیا۔ اب مدارس میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے وہ ملا صدرا کا فلسفہ ہے۔ دوسری طرف سترہویں صدی عیسوی مغرب میں ارسطو اور افلاطون پر شدید تنقید ہونے لگی اور وہاں ملاصدرا کے معاصرین، ڈیکارٹ اور فرانسس بیکن، نے عقل کو حتمی سمجھنے سے انکار کیا اور اسکی مصنوعات کو تجزیہ و تنقید کی چھلنی سے گذارنے پر زور دیا۔
چنانچہ وہاں وحدت الوجود اور اصالتِ وجود کی بجائے انسانی علم کی نوعیت اور اس کی تطہیر فلسفے کا موضوع قرار پائے۔ اسی طرح گلیلیو، کپلر، نیوٹن اور دیگر نے فلسفے کو ترک کر کے ریاضی اور مشاہدے پر توجہ دی اور جدید سائنس کا سنگ بنیاد رکھا۔
ملا صدرا اپنی ’اسفار‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ یہ مجھ پر الہام ہوئی ہے (فالھمنی)، اور جب یہ وحدت الوجود اور اصالتِ وجود کی بات کرتے ہیں تو وہاں بھی کہتے ہیں کہ یہ الہام ہوا ہے۔ ہیراکلتس سے لئے گئے حرکتِ جوہری کے تصور کو بھی اپنا مکاشفہ قرار دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ غیر معصوم کے مکاشفے کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔ ایک شخص کو ایک مکاشفہ ہو سکتا ہے تو دوسرے کو کچھ اور مکاشفہ ہو سکتا ہے، جیسا کہ مختلف لوگوں کو انکی خواہشات اور خیالات کے مطابق مختلف خواب آتے ہیں۔
دینی مدارس میں بات تب زیادہ بگڑی جب فلسفے کو تعقل کا مترادف سمجھ کر اس پر نقد کو عقل دشمنی کہا جانے لگا۔ یہ مغالطے کا سہارا لینے کی کوشش تھی۔ عقل کی سینکڑوں مصنوعات ہیں اور ان میں سے ایک فلسفہ ہے اور فلسفے کے کئی مکاتب فکر میں سے ایک ملا صدرا کا مکتبِ فکر ہے۔ چنانچہ سائنس، طب، معاشیات، جامعہ شناسی، آرٹ، منطق، ریاضی، انجینئرنگ، تاریخ دانی، نفسیات، وغیرہ وغیرہ، سب تعقل کا ہی نتیجہ ہیں۔ ان سب علوم کی آگے کئی شاخیں ہیں۔ تعقل کے ایک جز کے بھی محض ایک جز کو کل کے مترادف قرار دینا خود کو دھوکہ دینے کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ فلسفے کے بھی کئی مکاتب ہیں۔ ملا صدرا کا فلسفہ اور ہے، ہندو فلسفہ اور ہے، چینی فلسفہ اور ہے، اسی طرح مغرب میں ہیگل کا اور ہے، کانٹ کا اور ہے، نطشے کا اور ہے۔ یہی معاملہ حکمت کا بھی ہے، کہ فلسفے کو حکمت قرار دیا جانے لگا۔ حالانکہ فلسفہ نہ لغت کے اعتبار سے عقل کے معنوں میں آیا ہے نہ اصطلاح کے اعتبار سے دینی متون میں عقل یا حکمت کی اصطلاح فلسفے کے معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ موضوع اور ہدف کے اعتبار سے بھی فلسفہ کو تعقل اور حکمت کا مترادف نہیں کہا جا سکتا۔ انبیاءؑ کے اپنی امتوں کو فلسفہ سکھانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ملا صدرا کی تعلیمات کی ترویج کرنے والے تنقید کا منہ بند کرنے کیلئے مغالطے اور مکر کا سہارا لیتے ہیں۔ نہ تو فلسفہ ’اسفارِ اربعہ‘میں منحصر ہے نہ فلسفے پر تنقید خرد دشمنی ہے۔ حکمت راست فکری کو کہا جاتا ہے۔ فلاسفہ کے وہ خیالات جو شریعت سے متصادم ہیں اور جدید علوم کی روشنی میں رد ہو چکے ہیں، ان کو حکمت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اہل تصوف کا جسمِ الہی کا تصور ہو یا جسمِ مثالی کا تصور ہو یا ہم جنس بازی کو ظریف طبع اور دانشور حضرات کی خوبی قرار دیا جائے، یا قوم پرستی پر مبنی خیالات پیش کئے جا رہے ہوں، تو انہیں کیسے عقلمندی کہا جا سکتا ہے؟ ’ان بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء‘ کہنا کیا کھلا تضاد نہیں؟ بسیط کیسے اجزا کا کل ہو سکتا ہے؟ شروع میں سب فلاسفہ اصالتِ ماہیت کے قائل تھے، اور مسلمانوں میں فلسفے کے بڑے شارح، جیسے فارابی اور ابن سینا بھی اصالتِ ماہیت کے قائل تھے۔ سائنس بھی اسی کی قائل ہے۔ ملاصدرا بھی شروع میں اس کے قائل تھے۔ لیکن چونکہ ’اپنیشد‘ اور ابن عربی کا وحدت الوجود کا تصور اس سے قابلِ توجیہ نہیں تھا اسلئے ملا صدرا نے مغالطہ کرتے ہوئے اصالتِ وجود کو بنیاد قرار دیا۔ ان میں سے کسی بات کو ماننا اصول دین کا حصہ نہیں ہے، اور سن ہجری کے پہلے ایک ہزار سال ان باتوں کو مانے بغیر بھی مسلمان معرفت کے زینے چڑھ لیا کرتے تھے، اور علم کی دنیا میں کامیاب ترین قوم تھے۔
آج کل قم کے بعض مدارس میں ملا صدرا کا فلسفہ پڑھایا جا رہا ہے۔ ایک طالب علم علامہ طباطبائی کی ’بدایۃ الحکمہ‘، ’نہایۃ الحکمہ‘، ’ اصولِ فلسفہ‘اور ملا سبزواری کی ’منظومہ‘ پڑھنے میں پانچ سال لگا دیتا ہے۔ اس کے بعد اسفار پڑھنا شروع کرے تو دس سال اس کتاب کے درس میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ پھر ’فصوص الحکم‘اور ’فتوحاتِ مکیہ‘ سے فارغ ہو تو ملا صدرا کی باقی پچاس کتابیں اس کی باقی ماندہ زندگی نگلنے کو آ موجود ہوتی ہیں۔ اور اس ساری مشق سے نہ اسکو دنیا میں کوئی فائدہ پہنچتا ہے نہ آخرت کے کسی کام آتی ہیں۔ جب وہ واپس اپنے علاقے میں پلٹ کر جاتا ہے تو لوگ اس سے جو کچھ پوچھتے ہیں ان سوالوں کیلئے وہ تیار نہیں ہوتا ہے۔ نہ اسے دینی مسائل معلوم ہوتے ہیں کہ وہ میراث، شادی بیاہ، نماز روزے یا حج کے بارے میں کچھ بتا سکے۔ نہ وہ عقیدے کے بارے میں کسی شبہے کا جواب دے سکتا ہے اور نہ وہ حدیث و رجال سے واقف ہوتا ہے۔ نہ اسے سائنس آتی ہے کہ وہ جدید علم کی روشنی میں کوئی صحیح رائے قائم کر سکے۔ غرض یہ کہ وہ کسی کام کا نہیں ہوتا اور سوائے حجام کی دکان پر بیٹھے افراد کی طرح حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کرنے کے یا جدید علوم سے لوگوں کو متنفر کرنے کے، اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یوں اس طالب علم کی زندگی ضائع ہو جاتی ہے اور وہ مداری کی طرح لفاظی اور مغالطات کے تماشے دکھا کر چندہ وصول کرتا ہے اور اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتا ہے۔ نوجوان طلاب کو چاہئیے کہ وہ جوانی کا قیمتی وقت فقہ، حدیث اور عقیدے کے میدان میں صرف کریں۔ اگر جدید دنیا کے بارے میں جاننا چاہیں تو بازار سے اس علم کے بارے میں یونیورسٹی کے نصاب کی کوئی کتاب خرید کر خود مطالعہ کر لیں۔ آج کل مختلف یونیورسٹیز آن لائن کورسز بھی کراتی ہیں، جن میں آپ مختصر وقت میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دینی حلقوں میں رائج ملا صدرا کے فلسفے نے نہ تو علم کے میدان میں کوئی دریافت کی ہے، نہ معاشیات یا سیاسیات میں کسی گتھی کو سلجھایا ہے، نہ یہ فقہ کی کتاب ہے، نہ اخلاق کی کتاب ہے۔ یہ انسانی تخیل کا ایک مجموعہ ہے جس کا پچھلے چار سو سال میں کسی کو کوئی فائدہ ہوا نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ یہ شرمناک بات ہے کہ آج کی دنیا میں اسفار جیسی کتابوں کو دنیا کے سامنے اپنی شناخت کیلئے پیش کیا جائے۔