لیکن اب ہوا کچھ یوں کہ ہم نے پروفیشنل بننے کے چکر میں ڈی پی پر اپنی تصویر لگا لی۔ یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہمارا اور کیمرا کا ہمیشہ سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ جب ہم پوز بنائیں تو ان کا تصویر لینے کا دِل نہیں کرتا اور جب وہ تصویر لیں تب تک ہمارا خوامخواہ کی مسکراہٹ سے جبڑا دکھ رہا ہوتا ہے۔ اسی کشمکش میں ہماری آدھی تصویریں آنکھیں بند کرکے آتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ہم دنیا کو خواب خرگوش کے مزے لوٹتے دکھانا چاہ رہے ہیں یا جیسے ہم کہہ رہے رہوں کہ لو بھئی کوسیں جتنا کوسنا ہے ہمارے یہاں تو گہرا سکون ہے۔
خیر تو ہم بات کر رہے تھے سوشل میڈیا ہر ہونے والے ذاتی تجربات کی۔ ہمیں زیادہ تر پیغامات کام کے متعلق آتے، کسی کو فری لاسنگ کے بارے میں معلومات چاہیے ہوتی تو کچھ کو ہمارے ادارے میں آرٹِیکل پبلش کرانا ہوتا۔ یہاں تک تو راوی سب چین ہی چین لکھ رہا تھا لیکن پھر ہم نے ڈی پی پر اپنی تصویر لگانے کا سوچا، یوں سمجھیں کہ جھیل جیسی پرسکون زندگی میں ہم ڈی پی کا پتھر پھینک دیا، جن لوگوں کو ہم فرینڈ لسٹ میں ایڈ کرکے بھول بھلا چکے تھے، ایک دم سے ان کے میسجز کچھ اِس تواتر سے آنا شروع ہوئے کہ ایک لڑی سی بن گئی، وہ بھی موتیوں کی یا سفید موتیا کی نہیں بلکہ گوبھی کے پھول کی۔
یوں زندگی کا ایک بے ڈھنگا سا تجربہ شروع ہوا۔ ہمیں اِس طرح کے میسجز کی عادت نہیں تھی، شروع میں تو ہم نے اس کو فیس ویلیو پر ہی لیا کہ کسی کو واقعی معلومات چاہیے ہوں گی ، لیکن نہ جی ناں، ہماری سادگی سے لے کر لُکس تک ہر چیز کو سراہا گیا، یقین جانیے کہ ہمیں پوری زندگی میں اپنی لکس پر اتنی تعریف نہیں ملی جتنی گذشتہ چند ہفتوں میں مل گئی، حیران سے زیادہ پریشان ہو کر آئینہ دیکھا تو وہاں تو سب کچھ ویسا ہی تھا، بچپن سے لے کر اب تک اِس سوسائٹی کی اتنی سٹیریو ٹائپنگ برداشت کر چکے تھے کہ اپنے بارے میں یہ خوش فہمی تو چھو کر بھی نہیں گزری کہ ہماری خوبصورتی آخرکار اِس دنیا کو نظر آنے لگی ہے۔
اسی حیران اور پریشان کیفیت میں مبتلا اب ہمیں یہ بھی سمجھنا ہے کہ ان میسجز کو ڈیل کیسے کیا جاتا ہے۔ ہم ایک سنجیدہ لکھاری ہوں نہ ہوں سوشل میڈیا صارف ہم کافی سنجیدہ ہیں اور نوٹی فیکیشنز کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے، تو اب ان پیغامات کا کیا کیا جائے جو یک لخت آنے شروع ہوئے ہیں، جن کا مقصد صرف ہماری شان میں قصیدے پڑھنا ہے اور وہ بھی فلٹرز کی کٹھالیوں سے گزری ایک انتہای ایڈیٹڈ تصویر کی بنیاد پر۔ اِن حالات سے تو ہمیں وہ میم یاد آ گئی کہ وہ تمھیں پروفائل پکچر دکھا کے گمراہ کرے گی ، تم شناختی کارڈ دیکھنے کی ضد کرنا۔
یوں سمجھیں اپنا بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہے، ہمارا معاملہ بھی شناختی کارڈ والا ہی ہے، اِس لیے ہماری تمام برادران کو نصیحت ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور یہ کہ ایسی فارغ حرکتیں کرنے کے بجائے کوئی کام دھندہ ڈھونڈیں، بہنوں سے نصیحت کی درخواست ہے کہ ہمیں بتایا جائے اِس سچویشن کو کیسے ہینڈل کیا جائے، کیوں کہ ہم تو اس میدان کے ٹھہرے اناڑی، آج تک مخالف جنس سے یا تو نوٹس دینے کی ریکویسٹ آئی ہے یا پروفیشنل ایڈوائس کی، اِس کے اگے کا کیا سکوپ ہے، ہمیں اب تک بالکل بھی اندازہ نہیں، ہم تو اندر باہر سے وہی ہیں، تو یہ بدلاؤ کیوں، کیسے، اور کہاں سے آیا، یہ کیا ماجرہ ہے؟ اگر کوئی بہن اِس کرامت پر روشنی ڈال سکے تو فدویہ ممنون ومشکور رہے گی۔