آزاد کشمیر عدالت العالیہ کے 6 ججز پر مشتمل فل بنچ نے منگل کے روز چیف جسٹس صداقت حسین راجہ کی سربراہی میں وزیراعظم آزاد کشمیر کے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
عدالت العالیہ کے فل بینچ نے ساڑھے دس بجے سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ جنرل نے وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے مزید وقت کی مہلت مانگی جس پر چیف جسٹس نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو پیش ہونے کیلئے ساڑھے گیارہ تک کی مہلت دے دی۔
دن ساڑھے گیارہ بجے وزیراعظم سردار تنویر الیاس بذریعہ ہیلی کاپٹر عدالت پہنچے جس کے بعد سماعت کا آغاز ہوا۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم آزاد کشمیر کی مختلف مقامات پر کی گئی تقاریر کی ویڈیو کلپس چلانے کا حکم دیا جس کے بعد وزیراعظم کو ان کی تین تقاریر کی ویڈیو کلپس دکھائی گئیں جس میں اعلی عدلیہ کے فیصلوں اور ججز کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس صداقت حسین راجہ اور جسٹس خالد رشید نے وزیراعظم سے سوالات کیے۔
چیف جسٹس: آپ نے ویڈیو دیکھ لی۔
وزیراعظم: جی۔
جسٹس خالد رشید: کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کہ یہ گفتگو آپ کی ہے۔
وزیراعظم: ہمارے پاس تقریر لکھی ہوئی آتی ہے۔
کیا آپ ان الفاظ پر معافی مانگیں گے یا پروسیڈ کریں گے؟
وزیراعظم: میں اپنے کہے الفاظ پر غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔
جسٹس خالد رشید :آپ نے تقریر میں جس سٹے آرڈ کی بات کی ہے جو اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کاتھا وہ کتنے عرصہ سے انظامیہ کے پاس زیر تصفیہ رہا؟؟
عدالت کا سوال: آپ نے دو فرموں کو این او سی جاری کیا؟
عدالت: اس بات کی آپ تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں کو آپ نے این او سی جا ری کی ۔
جسٹس خالد رشید: آپ کو یہ علم تھا کہ دو سال سے معاملہ چل رہا؟
وزیراعظم کا جواب: نہیں علم تھا۔
چیف جسٹس: آپ کی بطور وزیراعظم کیا رائے ہے عدالتی احکامات کو کھلواڑ کہا جا سکتا ہے؟؟
وزیراعظم: میں عدالتوں کا احترام کرتا ہوں۔
عدالت: عدالتی احکامات کو کھلواڑکہا جا سکتا ہے؟؟؟
وزیراعظم کا جواب: نہیں کہا جا سکتا۔
عدالت کا سوال: آپ کی کیا رائے ہے توہین عدالت بنتی ہے یا نہیں؟؟
عدالت: آپ محتاط رہیں آپ کا سابقہ ریکارڈ بھی ٹھیک نہیں۔ آپ تحریری جواب دیں۔ ڈیڑھ بجے پھر یہاں تشریف لائیں ابھی سپریم کورٹ جائیں۔
ان دلائل کے بعد ہائی کورٹ نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوںٔے سماعت ڈیڑھ بجے تک ملتوی کردی۔
وزیراعظم آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد سپریم کورٹ روانہ ہوئے جہاں گیٹ پر انھیں بتایا گیا کہ اب ان کے کیس کی سماعت ساڑھے بارہ کے بجائے اڑھائی بجے ہوگی جس کے بعد وزیراعظم قریب ہی واقع وزیراعظم سیکرٹریٹ روانہ ہوگئے۔
ہائی کورٹ میں سماعت دوبارہ شروع ہونے پر فل بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے انھیں دو سال کےلیے نااہل قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کو سردار تنویر الیاس کو اسمبلی نشست سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا حکم دیا۔
ہائی کورٹ کی سماعت کے بعد ڈھائی بجے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم کی سربراہی میں سماعت شروع کی۔
سماعت شروع ہونے پر بھی وزیراعظم کمرہ عدالت نا پہنچے تو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا جس کے بعد وزیراعظم کے وکیل اصغر علی ملک نے تنویر الیاس کی صحت خرابی کے باعث انھیں مہلت دینے کی درخواست دی جس پر چیف جسٹس راجہ سعید اکرم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتا بھی ہے کہ تنویر الیاس پر کیس کیا ہے اور وہ کسی عام کیس میں نہیں بلکہ توہین عدالت کے کیس میں پیش ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ سنانا شروع ہی کیا تھا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ کورٹ میں پیش ہونے کے بعد چیف جسٹس راجہ سعید اکرم نے ان سے ان کی ویڈیوز اور گفتگو کے متعلق پوچھا اور برہمی کا اظہار کیا۔
راجہ سعید اکرم چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کو سکھاتے ہیں کہ ہمیں کس طرح کام کرنا ہے۔ کیا یہ جو تقریریں ہیں یہ آپ نے ہی کی ہیں؟ آپ بہت اہم اور ذمہ دار عہدے پر بیٹھے ہیں۔ آپ کسی کیس کو ڈسکس نہیں کرسکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آپ کی ڈومین میں گھس رہے ہیں کیا؟ اب آپ ہماری ڈومین میں گھسے ہیں، کیا ہم آپ کو چھوڑیں گے؟ آپ نے براہ راست توہین عدالت کی ہے۔ ہمیں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے آپ کے ویڈیوز اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے عدلیہ کی توہین کی۔
سپریم کورٹ نے سردار تنویر الیاس کو تحریری جواب جمع کروانے کےکیے دو ہفتوں کی مہلت دے دی۔ جس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔
ہائی کورٹ کے حکم کے بعد آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے سردار تنویر الیاس کو ان کی نشست سے ڈی نوٹی فائی کردیا۔
وزیراعظم کے فارغ ہونے کے بعد کشمیر کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔ سردار تنویر الیاس ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں جہاں سے ریلیف ملنے کی صورت اور عدالت العالیہ کے فیصلے کے معطل ہونے کے بعد وہ بحال ہوں گے۔
آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت نے کسی وزیر اعظم کو اس طرح فارغ کیا۔
موجودہ صورتحال میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کےلیے آزادکشمیر کا آئین ایکٹ 1974کیا کہتا ہے؟
آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق وزیر اعظم کے فرائض انجام دینے والا وزیر:
1۔ وزیر اعظم کے انتقال کی صورت میں یا وزیر اعظم کا عہدہ اسمبلی کا رکن نہ رہنے کی وجہ سے خالی ہونے کی صورت میں، موسٹ سینئر وزیر صدر کی طرف سے اس دفتر کے کام انجام دینے کے لیے اسی وقت طلب کیا جائے گا اور وزراء اس وقت تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے جب تک کہ نیا وزیر اعظم منتخب نہیں ہو جاتا اور وہ اپنے عہدے پر فائز نہیں ہو جاتا۔
2۔ اگر اسمبلی کا اجلاس اس وقت جاری ہے جب وزیر اعظم کا انتقال ہو جائے یا وزیر اعظم کا عہدہ خالی ہو جائے تو اسمبلی فوری طور پر وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے آگے بڑھے گی۔ اور اگر اسمبلی اجلاس میں نہیں ہے تو صدر اس مقصد کے لئے وزیر اعظم کی موت یا جیسا بھی معاملہ ہو، دفتر کے خالی ہونے کے بعد چودہ دن کے اندر وزیراعظم کے انتخاب کے لیے اجلاس طلب کرے گا۔
3۔ جب وزیراعظم جسمانی معذوری یا بیماری کی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو تو موسٹ سینئر وزیر وزیراعظم کے فرائض انجام دے گا جب تک کہ وزیراعظم اپنے کام دوبارہ شروع نہ کردے۔
4۔ اس آرٹیکل میں، "موسٹ سینئر وزیر" سے مراد وزیر اعظم کا نامزد کیا گیا موسٹ سینئر وزیر ہے۔