چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے پنجاب میں انتخابات کے لیے فنڈز کی فراہمی کے معاملے پر مقدمے کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور دیگر اداروں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کی تھی۔
سپریم کورٹ نے تمام اداروں کو 10 اپریل تک اپنی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 11 اپریل کو اپنا جواب جمع کرایا۔ جس میں بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم کئے گئے اور نہ ہی سیکیورٹی سے متعلق معاملات طے پاسکے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حکومت مذکورہ فنڈز جاری کرنے سے کترا رہی ہے اور عدالت عظمیٰ کے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کے لیے مواقع تلاش کر رہی ہے۔
دوران سماعت انتخابات کے لیے فنڈز کی عدم فراہمی پر عدالت نے سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور گورنر اسٹیٹ بینک کو نوٹس جاری کردیے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے فنڈز فراہم نہیں کئے۔ فنڈز کی عدم فراہمی عدالتی احکامات کی حکم عدولی ہے۔عدالتی حکم عدولی کے نتائج قانون میں واضح اور سب کو معلوم ہیں۔
نوٹس میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کیلئے فنڈز کی فراہمی توہین عدالت کی کارروائی سے زیادہ اہم ہے۔
چیف جسٹس نے تمام افسران کو پرسوں 14 اپریل کو چیمبر میں طلب کر لیا اور گورنر اسٹیٹ بینک کو دستیاب وسائل سے متعلق تمام تفصیلات بھی ہمراہ لانے کا حکم دیا۔
عدالت نے سیکرٹری خزانہ کو بھی تمام ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کرتے ہوئے استفسار کیا بتایا جائے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔
عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کے حوالے سے تمام ریکارڈ بھی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔