عمران خان کی سفارت کاری اُن کی سیاسی جہت کا تعین کرے گی

09:19 PM, 12 Aug, 2018

کنور خلدون شاہد
عمران خان، جو پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں، نے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے بعد اپنی وکٹری سپیچ میں بہت اچھی باتیں کیں۔ غیر سرکاری نتائج سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اُن کی پارٹی اگلی وفاقی حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اُس تقریر میں دیگر قابلِ تعریف باتوں کے علاوہ خاص بات عمران خان کی بیان کردہ ترقی پسند اور جدت آمیز خارجہ پالیسی کے خدوخال تھے۔

عمران خان کو اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان، چین اور انڈیا سمیت دنیا بھر سے مبارک باد وصول ہوئی ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم نے خود فون کر کے اُنہیں مبارکباد دی حالانکہ وہ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ کس طرح کچھ جماعتوں نے انتخابات سے قبل اُن کا نام استعمال کر کے اپنے حریفوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اب عمران خان پاکستان کا تعلق دنیا، خاص طور پر اس کے جنوبی ایشیائی ہمسایوں سے جوڑنے جا رہے ہیں۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی کیونکہ گذشتہ چند عشروں سے پاکستان تنہائی کا شکار ہے، اور یہی اُن کی خارجہ پالیسی کے سامنے اہم چیلنج ہوگا۔

https://www.youtube.com/watch?v=k-z2_5WKtEI

سفارت کاری برائے سکیورٹی

عمران خان کی حکومت کے لئے سفارت کاری اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ سکیورٹی پالیسی کے ساتھ مربوط ہے، اور سکیورٹی پالیسی پر فوجی قیادت کی مکمل اجارہ داری ہے۔ اسلام آباد کی دو دھاری ہتھیار کی طرح کام کرنے والی سکیورٹی پالیسیوں نے نہ صرف ملک میں تشدد کی آگ بھڑکائی ہے، بلکہ ان کی وجہ سے پاکستان کے ہر ہمسائے نے اس پر سرحد پار دہشتگردی کا الزام بھی لگایا ہے۔ دہلی اور کابل کا پاکستان پر الزام رہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر، اور ڈیورنڈر لائن کے قریب افغان سرزمین پر کارروائیاں کرنے والے انتہاپسند گروہوں کو اپنے اثاثوں کے طور پر پروان چڑھاتا ہے۔ تہران کی طرف سے بھی ایسے ہی الزامات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ انتہاپسندی کی شدت ایران سے لے کر چین تک محسوس کی جا رہی ہے، اور اس شدت کا محور پاکستان کو مانا جاتا ہے۔



ایک بات طے ہے کہ اس متناقضہ پالیسی کی جو بھی بنیاد ہو، ان جہادی گروہوں کو سفارت کاری کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے خود پاکستان نے نقصان اٹھایا ہے۔ چنانچہ یہ ایک ناکام پالیسی ہے







گذشتہ سال جب جہادی دستوں سے تصادم کے نتیجے میں دس ایرانی سرحدی محافظ جاں بحق ہو گئے تو ایران نے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان کی سرزمین کے اندر انتہا پسندوں کے 'محفوظ ٹھکانوں' کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسی طرح چین بھی پاکستان سے شدت پسندوں کا تعاقب کرنے کا کہتا رہا ہے، کیونکہ وہ مشرقی ترکمانستان کی اسلامی موومنٹ کے ساتھ مل کر اس کے صوبے سنکیانگ میں گربڑ پیدا کرتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ ان سرحد پار کارروائیوں میں 'اچھے طالبان' اور ان کے برے دوست ملوث ہوں، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہر ہمسایہ ملک نے پاکستان پر ہی الزام عائد کیا ہے۔ تاہم الزامات کا لب و لہجہ ایک سا نہیں ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس متناقضہ پالیسی کی جو بھی بنیاد ہو، ان جہادی گروہوں کو سفارت کاری کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے خود پاکستان نے نقصان اٹھایا ہے۔ چنانچہ یہ ایک ناکام پالیسی ہے۔

معاشی سفارت کاری

سکیورٹی کی طرح معیشت کا تعلق بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی سے ہے۔ اس کی ایک جھلک امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کی اس تنبیہہ میں دکھائی دی جس میں اُنہوں نے آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرض دینے سے خبردار کیا۔ پاکستان کے چین اور سعودی عرب سے تعلقات کی بنیاد معاشی ضروریات ہیں۔ ابھی حال ہی میں جب پاکستانی کرنسی شدید دباؤ میں تھی تو چین نے ہمیں دو بلین ڈالر کا قرض دے کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کو روکا۔

اپنی وکٹری سپیچ میں بھارت کے ساتھ دوستی، اور جنوبی ایشیا کے ان حریف ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کے فوائد کی بات کرتے ہوئے عمران خان نے دراصل پاکستان کے بہت سے مالی مسائل کے حل پر انگلی رکھ دی ہے۔ یہی ہماری پالیسی سازی کے راستے میں سب سے بھاری پتھر ہیں۔ ایک ارب سے زائد آبادی کا حجم رکھنے والی مارکیٹ تک رسائی اسلام آباد کی معاشی رگوں میں زندگی کی روح پھونک سکتی ہے۔ لیکن یہ پیش رفت موجودہ سکیورٹی پالیسی کا دھڑن تختہ کر دے گی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت فوج کے مفاد میں نہیں۔ سب سے بڑھ کر، یہ خطے میں چین کی مالیاتی اجارہ داری کے لئے بھی ایک چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔

توازن کی ضرورت

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کسی طور نہیں چاہتا کہ جس دوران وہ خطے میں ون بیلٹ ون روڈ جیسے عظیم منصوبے پر سرمایہ کاری کر رہا ہو، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی تصادم کا خطرہ منڈلاتا رہے۔ نہ ہی چین یہ چاہتا ہے کہ پاکستان جہادیوں کو تزویزاتی اثاثے کے طور پر بھارت کے سیاسی مفادات کے خلاف، خاص طور پر کشمیر میں استعمال کرے۔ لیکن بیجنگ، واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان طاقتور ہوتی شراکت داری کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اُسے ایسے پاکستان کی ضرورت ہے جو مکمل طور پر چین پر دارومدار رکھتا ہو۔ چنانچہ عمران خان کو احساس کرنا ہوگا کہ سخت گیر رقابت بازی کے کھیل بیسویں صدی میں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ اب کہیں زیادہ پیچیدہ سفارتی داؤ پیچ کا زمانہ ہے۔



اس کا مطلب یہ کہ جس طرح ایران اور سعودی عرب کے درمیان توازن پیدا کرنا اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کے سامنے دائمی الجھن رہی ہے، اور وہ کسی ایک کے ساتھ تعلقات توڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، اسی طرح پاکستان کو دو عالمی طاقتوں، چین اور امریکہ، کے ساتھ تعلقات کی تنی ہوئی رسی پر چلنا ہے۔ اس کے لئے توازن کے پیمانے موجود ضرور ہیں، لیکن بہت نازک ہیں۔

اس حوالے سے عمران خان کا امریکہ کے لئے نہایت جچا تلا پیغام گذشتہ دوعشروں سے جاری ٹکراؤ کی پالیسی سے مختلف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد پر چین کا اثر بہت گہرا ہو لیکن افغانستان میں امن کی بحالی کی کامیاب کوشش، اور پاکستان کے جہادی گروہوں سے جان چھڑانے کی پالیسی پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے۔

کشمیر اور بھارت

جس طرح امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی واشنگٹن کو باور کرائے گی کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد نہیں ہوتی، اسی طرح بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسا سال بھی گزار لیں جس میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکیاں نہ دیں، اور اس کے بعد امن کی فضا اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ یقیناً ان دونوں ممالک کے درمیان ایسی بہت سی جگہیں موجود ہیں جہاں سفارت کاری کے وسیع امکانات پائے جاتے ہیں۔



اگرچہ گذشتہ سات عشروں سے کہا جا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکتا، لیکن یہ بیانیہ پاکستان نے اپنی تخلیق کے بعد یکطرفہ طور پر آگے بڑھایا، اور پھر اس کی باز گشت سرحد کے آر پار تعینات فوج کی طرف سے سنائی دی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ اس تناؤ سے افواج کا مالی مفاد وابستہ ہے۔



حقیقت یہ ہے کہ جہاں دنیا کشمیر پر بھارت کے مؤقف کو قابلِ قبول سمجھتی ہے وہیں وہ بھارت کے اس بیانیے کو بھی غلط نہیں سمجھتی کہ پاکستان جہادی گروہوں کے ذریعے اس کے علاقے میں مداخلت کرتا رہا ہے۔







اگر مسئلۂ کشمیر کے حل کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو وہ سفارتی ذرائع ہی ہیں، جن کے ذریعے اس سلگتے خطے کی حدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان اور کشمیر کی آبادی اس مسئلے کا حل چاہتی ہے، جبکہ بھارت موجودہ صورتِ حال کو برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

عمران کی آمد

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے لے کر اسلامی ممالک کی تنظیم، او آئی سی کے پلیٹ فورم تک، پاکستان ہر جگہ مسئلۂ کشمیر کو اجاگر کر چکا ہے لیکن ہر جگہ اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں دنیا کشمیر پر بھارت کے مؤقف کو قابلِ قبول سمجھتی ہے وہیں وہ بھارت کے اس بیانیے کو بھی غلط نہیں سمجھتی کہ پاکستان جہادی گروہوں کے ذریعے اس کے علاقے میں مداخلت کرتا رہا ہے۔

تاہم اس سے قطع نظر کہ سیاسی مفاد کے لئے عمران خان کیا جذباتی بیانیے آگے بڑھاتے رہے ہیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ہمیں پہلی بار ایک ایسا لیڈر ملا ہے جس کی بات دنیا سنتی ہے، اور جس کے عالمی سطح پر تعلقات ہیں۔ لیکن وہ اپنے پیش روؤں کی طرح اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اس ضمن میں کسی بھی پیش رفت کے لئے اُنہیں فوجی قیادت کی حمایت درکار ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی وکٹری سپیچ میں جن نکات کا ذکر کیا، اُن پر عمل پیرا ہونے کی کوشش اُنہیں اپنے سرپرستوں کی نظروں میں معتوب ٹھہرانے کے لئے کافی ہوگی۔
مزیدخبریں