تفصیلات کے مطابق انگریزی اخبار ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ کے سابق چیئرمین نے تجویز پیش کی کہ نیا ایکشن پلان پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی (پی سی این ایس) تیار کرے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہو۔
یاد رہے کہ اسی طرح کی ایک کمیٹی سال 2012 میں ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن کے بعد بنائی گئی تھی جس میں القاعدہ کے سرکردہ رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر کی جانب سے یہ مطالبات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا اور اعتراف کیا تھاکہ خیبر پختونخوا میں طالبان مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ لوگ اپنے علاقے میں طالبان کی موجودگی کے خلاف صوبے کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔
رضا ربانی نے خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملوں میں اضافے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ صوبے میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز کے جوان شہید ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے مزید کہا کہ یہ حملے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی اب کوئی متحد کمانڈ نہیں رہی۔
رضا ربانی نے تجویز پیش کی کہ یہ پالیسی، نیا ایکشن پلان پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے پلیٹ فارم سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنائی جائے اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نفاذ کی نگرانی بھی کمیٹی کو کرنی چاہیے اور اسے ہر تین ماہ بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں عملدرآمد کی صورتحال پر رپورٹ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ نے یہ تجویز بھی دی کہ پارلیمانی کمیٹی کے رولز میں ترمیم کی جائے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے بجائے کمیٹی کا چیئرمین سینیٹ سے ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ وفاق سے متعلق ہے۔