جذبات سے مغلوب اس قوم میں ویسے تو بے پناہ غصہ، بلاوجہ غیرت، خودداری، حمیت آزادی، خودی اور دیگر معاشرتی و مذہبی جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ مگر ایک جذبہ جس کا ذکر خیر روزمرہ زندگی میں عام مستعمل ہے وہ ہمارا جذبہ حب الوطنی ہے۔
پاکستان سے بے پناہ محبت کے اظہار پر مشتمل اس جذبے کی اصطلاح گو ہم نے مکمل طور پر عربی زبان سے مستعار لی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں اکثر وطن سے بے لوث محبت اور جذبہ ایمانی گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور ہم اسی بھنور میں غلطاں رہتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام ہے یا سب سے پہلے پاکستان۔ آسان نسخہ تو یہی ہے کہ سب سے پہلے اسلامی پاکستان۔
اب ایک لحظہ کے لیے جذبہ حب الوطنی کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بات ہم پہلے ہی واضح کر دیں کہ فدوی کسی سیاسی بحث کا 'سینئر تجزیہ کار' نہیں ہے چنانچہ تجزیہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت سے عاری ہوگا اور اس کی پیشگی معذرت۔
پہلا نقطہ تو یہ ہے کہ میری رائے میں پاکستان دنیا کا ایک عظیم ترین ملک ہے۔ اور اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ اس ملک میں میرا جنم ہوا تھا۔ یہ جذبہ حب الوطنی کی بنیاد ہے۔ کرہ زمین کا نقشہ دیکھئے اور جن لکیروں پر مشتمل خطہ جناب کی جنم بھومی قرار پائے اس خطہ زمین سے بے پناہ محبت اور اسے عطیم ترین گرداننا آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے اور جذبات کی طرح یہ جذبہ بھی خرد سے لاتعلق ہے۔
عالم اسلام کا یہ قلعہ اور مملکت خداداد اسلامی پاکستان تو اپنے وجود سے ایسے جذبات کی نفی کرتا ہے۔ ترکیب میں خاص قوم رسول ہاشمی کسی طور بھی نقشے پر کھینچی گئی افسانوی لکیروں میں مقید نہیں ہو سکتی۔ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدا است۔ روز اول سے سلطنت اسلامیہ جغرافیائی نہیں نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے اور اسلام کا پیغام اقوام عالم میں مکمل پھیلانے کا حکم ہے۔ اس تصور میں جذبہ حب الوطنی کی کوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں۔ چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر آپ کے خیالات دائیں بازو یا مذہبی نوعیت کے ہیں تو آپ کو ہر طور جذبہ حب الوطنی سے پرہیز لازم ہے۔
مغربی دنیا میں یہ جذبہ خال خال ہی دستیاب ہے۔ عملی طور پر اپنے معاشروں کو بے پناہ ترقی دینے والے فرنگی کفار ناصرف وطن کو عظیم تر بنانے کا نعرہ بلند نہیں کرتے بلکہ ملی نغموں اور ترانوں سے بھی مکمل بے بہرہ ہیں۔ برطانیہ کے پرچم صرف فٹبال کے عالمی مقابلوں اور ہر پچیس سال بعد ملکہ الزبتھ کی لامتناہی حیات پر حیرت کے اظہار کے لیے ہی بلند کیے جاتے ہیں۔
ان مملک میں بسنے والے دانشور شاہی خاندان پارلیمان مذہب اور افواج کسی کو بھی تنقید سے بالا نہیں گردانتے اور جذبہ حب الوطنی مفقود ہونے کے باعث ان کے آڑے بھی نہیں آتا۔ حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ ایک مزاح نگار جان اولیور اپنے پروگرام میں گیارہ ایسے کتوں کو مدعو کرتا ہے جو دکھنے میں امریکہ کی عدالت عظمیٰ کے گیارہ ججوں سے مشابہ ہیں اور اس پر توہین عدالت بھی نہیں لگتی۔ یقین مانیں مغرب میں جذبہ سگ پرستی حب الوطنی کے جذبات پر کہیں بھاری ہے۔
ایسا نہیں کہ مغربی ممالک میں محب وطن شہری ہوتے ہی نہیں۔ ہر ملک میں وطن کے پرچم کے سائے تلے غیر سفید فام لوگوں پر تشدد کے لیے اسی جذبے کی مدد لی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں مسجد میں دہشت گردی کرنے والا آسٹریلوی شہری اسی جذبے کا شکار تھا۔ وہ تو محترمہ وزیراعظم صاحبہ نے اس موقع پر شلوار قمیض زیب تن کرکے اپنے معاشرے کو جذبہ حب الوطنی سے بال بال بچا لیا۔ چنانچہ اگر آپ بائیں بازو یا لبرل سوچ کے حامی ہیں تو اس جذبے سے کنارہ ہی کیجئے۔
میں سوچتا تھا کہ اس تمام لاحاصل بحث کے باوجود بابر اعظم کی کور ڈرائیو ہمیشہ میرا جذبہ حب الوطنی بیدار کر دیتی ہے مگر بشکریہ پی ایس ایل یہ سمجھا کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے میچ میں بابر اعظم کی محبت جذبہ حب الشھری کی نظر ہو جاتی ہے۔ اور پریمئر لیگ میں آرسنل کی جیت کی خوشی یقینی طور جذبہ حب الفٹبالی کا نتیجہ ہے۔
قصہ مختصر اہم خطہ زمین نہیں اس پر بسنے والے ہوتے ہیں۔ محبت زمین سے نہیں اس پر رہائش پذیر لوگوں سے کیجئے۔ عظمت کے تاج وطن کو نہیں بلکہ اس وطن سے متعلقہ مصنفین سائنسدانوں شہدا اور کھلاڑیوں کو پہنائیے۔ وطن از خود عظمت کی منازل طے کر لے گا۔ تقریر وتحریر پر پابندی، حقوق انسانی، نایاب انسان اور انسانیت کی روز مرہ بنیادوں پر تذلیل کی روش رکھنے والے معاشروں کے وطن ملی نغموں اور جنگی ترانوں سے عظیم تر نہیں بنا کرتے۔ جذبہ حب الوطنی کے سراب سے باہر نکلنے کا وقت ہے۔ غداری کی اسناد اور حب الوطنی کے تمغوں کی تقسیم قوم کو منقسم تو کر سکتی ہے عظیم ترین نہیں بنا سکتی۔