تفصیلات کے مطابق دہشتگردوں کی مالی معاونت کے کیس میں حافظ سعید اور ان کے دیگر ساتھیوں کو سخت سیکیورٹی حصار میں عدالت پہنچایا گیا۔ جہاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج ملک ارشد بھُٹہ نے مقدمے کی سماعت کی۔ دوران سماعت حافظ سعید کے وکلا نے دلائل پیش کیے، جس کے بعد عدالت نے مقدمے میں نامزد حافظ سعید اور ان کے 4 ساتھیوں پر فرد جرم عائد کی۔
یاد رہے کہ حافظ سعید پر دہشت گردوں کی مالی امداد کا یہ مقدمہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے درج کیا تھا۔
دوسری جانب جماعت الدعوۃ نے اپنے اوپر لگائے گئے ان تمام الزامات کو بے بنیاد اور پاکستان پر عالمی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ساتھ ساتھ دعویٰ کیا کہ انہیں کالعدم لشکر طیبہ کا رہنما بتا کر اس مقدمے میں شامل کیا گیا۔
ملزمان نے استدعا کی کہ وہ کالعدم لشکر طیبہ پر 2002 میں لگائی گئی پابندی سے قبل ہی اسے چھوڑ چکے تھے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے جس کا ذکر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے میں بھی موجود ہے۔
اس ضمن میں محکمہ انسداد دہشت گردی نے پنجاب کے پانچ شہروں میں مقدمات درج کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ الانفال ٹرسٹ، دعوت الارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ وغیرہ جیسی فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ سے اکٹھا ہونے والی رقم اور فنڈز کو جماعت الدعوۃ نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی نے ان تنظیموں پر اپریل میں پابندی عائد کردی تھی جہاں تفصیلی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ ان تنظیموں کے جماعت الدعوۃ اور ان کی قیادت سے روابط ہیں۔
اس کے بعد 17جولائی کو حافظ سعید کو سی ٹی ڈی پنجاب نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں گوجرانوالہ سے گرفتار کیا تھا اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھتے ہوئے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
عالمی سطح پر لگنے والی پابندی کے خطرے کے پیش نظر حکومتی مشینری فوری طور پر حرکت میں آ گئی تھی تاکہ 2 ماہ کے اندر اندر اچھے نتائج دکھائے جا سکیں۔
ایف اے ٹی ایف ہر تین ماہ میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اور حالیہ رپورٹ میں ٹاس فورس نے پاکستان کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک سے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے مکمل خاتمے کے لیے حکومت کو اضافی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اس سلسلے میں پاکستان کو مزید اقدامات کے لیے فروری 2020 تک کی چھوٹ دی گئی ہے اور اور اس وقت تک پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا۔