بہرحال، جو لوگ قائد اعظم یونیورسٹی سے واقف ہیں انہیں میں اتنا بتاتا چلوں کہ یہاں ہرصوبے سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے اپنے صوبے کی سٹوڈنٹ کونسل بنائی ہوئی ہے۔ سندھ والوں کی مہران سٹوڈنٹ کونسل، پنجاب کی پنجاب کونسل، پٹھانوں کی پختون کونسل اور اسی طرح گلگت بلتستان تک کی کونسل یہاں موجود ہیں۔
میں چونکہ سندھ سے تھا تو مہران کونسل میں خود بخود آ گیا۔ مزید بات کرنےسے پہلے میں آپ کو مہران کونسل کے کچھ اصول بتاتا چلوں۔
فرسٹ سمسٹر کے طلبہ کو پوری یونیورسٹی میں موجود تمام سندھی سینئرز کا نام، علاقہ، ڈپارٹمنٹ اور سمسٹر معلوم ہونا لازم ہے۔ اگر کوئی سینئر کسی بھی فرسٹ سمسٹر کے سندھی کو روک کر یہ تمام چیزیں پوچھ لے اور اگر اسے نہ معلوم ہوں تو سینئر اپنی مرضی کی کوئی بھی سزا اسے دے سکتا ہے۔
کوئی سندھی جونیئر کسی سینیئر سندھی کا نام بغیر سائیں کہے نہیں لے سکتا۔ جونیئرز کو یونیورسٹی کے عوامی مقامات پر مرغا بنانا، درخت کو لڑکی سمجھ کر اس کے ساتھ انٹیمیسی دکھانا وغیرہ جیسے کام بھی کروائےجاتے ہیں۔
ہمیں ہمارے سینیئرز کی طرف سے واضح احکامات تھے کہ ہم پٹھانوں، پنجابیوں وغیرہ کے ساتھ میل جول نہ صرف کم رکھیں بلکہ ان کے ساتھ نوٹس بھی شیئر نہ کریں۔
ویک اینڈ کی رات ہمیں مہران کونسل کی طرف سے میسج موصول ہوتا تھا کہ ہمیں ایڈمن کی بلڈنگ کے سامنے جمع ہونا ہے جہاں ہماری اوریئنٹیشن ہونی ہے۔ اوریئنٹیشن کا مطلب صرف ذلیل کرنا ہوتا تھا جسے سینیئرز کانفیڈنس بلڈنگ کا نام دیتے تھے۔
مہران کونسل کی جو کیبنٹ تھی، جس میں چیئرمین، وائس چیئرمین وغیرہ شامل ہیں، اس کیبنٹ کا پروٹوکول یہ ہوتا ہے کہ کیبنٹ ممبرز اپنی کاپیاں، کتابیں اور بیگ خود نہیں پکڑے گا۔ اس کا سامان کوئی اور اٹھائے گا۔ وہ اکیلے کہیں نہیں جائیں گے۔ ان کے پروٹوکول میں ہر وقت دو یا تین لڑکے ساتھ ہوں گے۔ کوئی کیبنٹ ممبر کسی لڑکی سے دوستی نہیں کرے گا۔ کسی لڑکی کے ساتھ کیبنٹ ممبر کو دیکھا گیا تو اس کی ممبرشپ کینسل کر دی جائے گی۔
فرسٹ سمسٹر کے اختتام پر یا اختتام کے قریب تمام فرسٹ سمسٹر کے لڑکوں کو یونیورسٹی کے قریب رملی کے مقام پر بہتے ہوئے پانی جسے سٹریم کہتے ہیں پر لے جایا جاتا ہے۔ اس پانی میں ڈبکی لگانے کے بعد تمام جونئرز کا شمار سینئرز میں ہوتا ہے اور اس کے بعد اوریئنٹیشن کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والے فرسٹ سمسٹر سے یہی لڑکے اوریئنٹیشن لیتے ہیں جو کہ سٹریم میں ڈبکی لگا کر سائیں بنے ہوتے ہیں۔
مہران کونسل کے مثبت پہلوؤں کا ذکر اگر کریں تو ہرسال ایڈمشنز کے وقت ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جو کہ سندھ بھر کے طلبہ کے داخلہ فارم بھرنے اور لائن میں لگ کر فیس جمع کروانے وغیرہ کی ذمہ داری سر انجام دیتی ہے۔ طالبعلموں کو داخلے کے لئے اسلام آباد نہیں آنا پڑتا۔
ہوسٹل میں الاٹمنٹ لینے کے لئے اپنے اپنے علاقے کے لڑکوں کے ساتھ کو آرڈینیٹ کرنے میں بھی کونسل کے ممبرز مدد کرتے ہیں۔
کوئی اور کونسل، مہران کونسل جتنی منظم نہیں لیکن تضحیک کا رویہ تھوڑا سا پنجاب کونسل میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہاسٹل چھ میں میرے دو روم میٹس کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ان دونوں کو کونسل والے رات کو اوریئنٹیشن کے لئے لے جاتے تھے اور کبھی سردی کی رات میں شرٹ اتروا کر سڑک پر لیٹنے کا بھی حکم دے دیا کرتے تھے۔ لیکن اس طرح کا کوئی بھی کام کوئی اور کونسل نہیں کرتی تھی۔
پوری یونیورسٹی میں کسی بھی طالبعلم کا کوئی بھی مسئلہ ہو، اسے صوبے اور زبان کا مسئلہ بنانا، اساتذہ اور انتظامیہ کے سامنے پریشز گروپ بننا، ہر سیاہ و سفید میں اپنی قوم، زبان اور صوبے کے لڑکوں کو سپورٹ کرنا، کونسلز کی اولین ترجیح ہوا کرتی تھی۔
اگر کسی کی مدد بھی کرنا ہو تو کونسلز اپنے ہی صوبے کے طالبعلموں کی مدد کو آگے بڑھا کرتی تھیں۔
یونیورسٹی میں کچھ سال پہلے ایک بہت بڑا جھگڑا ہوا، جس کی وڈیو یوٹیوب پر اب بھی موجود ہے، وہ معمولی سی بات پر ہوا لیکن کونسلز نے اس کو لسانی رنگ دیا اور پھر پورے پاکستان نے تماشہ دیکھا۔ سٹوڈنٹس کا داخلہ منسوخ کیا گیا تو سب آپس میں مل بیٹھ گئے۔ سٹوڈنٹس کے دھرنے اور احتجاج کے باعث آخر کار یونیورسٹی انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیے اور ان تمام طالبعلموں کو جرمانے لگا کر بحال کر دیا گیا۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں کچھ بسیں خراب حالت میں بھی تھیں۔ ہاسٹل میں سردیوں میں گرم پانی مستقل نہیں آتا تھا۔ یونیورسٹی کی باؤنڈری وال نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کافی غیر محفوظ تھی۔ آپشنل کورسز پڑھانے کے لئے کم قابلیت کے اساتذہ بھرتی کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مسائل تھے لیکن کبھی کونسل کے چیئرمین کی جانب سے ان سب باتوں کے لئے احتجاج یا مانگ سامنے نہیں آئی۔ ایک دوسرے کو نوٹس تک نہ دینے والے، ایک دوسرے کی جان کے درپے کونسلز صرف اور صرف داخلے منسوخ ہونے کے خوف سے باہم شیر و شکر ہوئیں۔ جن کے ماں باپ کھیتوں میں، دفتروں میں، دکانوں پر چند روپے کے لئے خوار ہوتے ہیں، وہ یہاں یونیورسٹی میں پروٹوکول میں گھومتے ہیں۔ کونسلز کا محض ایک ہی مقصد نظر آیا اور وہ یہ کہ اپنا تسلط جما کے رکھا جائے۔ اور اس کو ثقافت کی حفاظت کا نام دیا جاتا ہے۔
لیکن کیا کونسلز کا کوئی متبادل بھی ہے؟ اگر ہے تو اس پر عمل درآمد کیسے ہو سکتا ہے؟ کونسلز بنانا مجبوری ہے یا صرف بدمعاشی؟ آپ بھی سوچیں۔ ہم بھی اگلی اور آخری قسط تک سوچتے ہیں۔
اس آرٹیکل کو تحریر کرنے سے پہلے میں نے ایرڈ ایگرکلچر یونیورسٹی کے اینترھوپولوجی دیپارٹمنٹ کے چیئرمین عابد غفور چوہدری صاحب، معروف صحافی رؤف کلاسرا صاحب اور معروف سماجی کارکن عمار علی جان سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔