پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو بنیادی حقوق حاصل نہیں

07:02 AM, 12 Dec, 2022

سلمان شاہ
'اس رات جب "امارت اسلامی" نے افغانستان کا اقتدار حاصل کر لیا میں کابل میں موسیقی کی ایک محفل میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا تھا کہ اچانک میرے کزن کی کال آئی، کہنے لگا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، ہمیں یہاں سے نکلنا چاہئے کیونکہ افغان طالبان اپنے اقتدار میں ہمیں یہاں موسیقی کے پروگرامات کرنے نہیں دیں گے اور ہمیں ڈر ہے کہیں وہ ہمیں مار ہی نہ ڈالیں۔'

پشاور میں مقیم 40 چالیس سالہ افغان موسیقار جلال یوسفی (فرضی نام) اپنے بچوں کے ہمراہ دو کمروں کے مکان میں ہمیں  اپنی کہانی سنا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ غیرقانونی طور پر پاکستان آنے سے ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

15 اگست 2021 کی رات غیرقانونی طور پر پاکستان  آنے کی کہانی انہوں نے کچھ یوں بیان کی: ''کزن کی کال کے بعد میں  نے فوراً موسیقی کا پروگرام چھوڑ کر گھر والوں کو نکلنے کی اطلاع دی اور گھر پہنچتے ہی ہم تین خاندان وہیں سے نکل پڑے۔ جلال کے مطابق یہ رات کے دس بجے تھے کہ ہمیں دو ٹیکسی کارز ملیں اور ہم نے منہ چھپا کر اس میں کابل سے قندہار کی طرف سفر شروع کیا جبکہ گاڑیوں میں زیادہ تعداد کی وجہ سے بچے زاروقطار روتے رہے۔''

ان کے بقول راستے میں کئی جگہوں پر ہمیں طالبان  کی جانب سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے سے منع کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا اور صبح چار بجے کے قریب ہم قندہار پہنچ گئے جہاں پر نہ تو کچھ کھانے  کے لئے تھا اور نہ پہننے کے لئے کیونکہ گھر سے جلدی میں نکلتے وقت ہم اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لائے تھے۔ قندہار میں ہم نے سپین بولدک تک پہنچنے کے لئے اور گاڑیاں پکڑ لیں اور مزید چار گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہم وہاں پہنچے جہاں پر ہمیں کھانے کے لئے  کچھ کھانا اور پینے کے لئے  صاف پانی ملا۔

جلال یوسفی نے مزید بتایا، ''سپن بولدک میں ہم سے پاکستان داخل ہونے کے لئے قانونی دستاویزات طلب کئے گئے لیکن ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہاں سے ہمیں واپس کابل بھیج دیا جائے گا تاہم وہاں پر موجود ایجنٹ نے ہم سے پیسوں  کی ڈیمانڈ کی اور ہم نے مجبور ہو کر ایجنٹ کو پیسے دیئے اور چمن بارڈر کراس کیا۔ وہاں سے کوئٹہ چلے گئے جہاں پر تین روزہ قیام کے بعد ہم پشاور پہنچ گئے۔''

جلال کو پشاور آئے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن پچھلے ایک سال سے وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں انہیں  پاکستان کی حکومت واپس ڈی پورٹ کر کے افغانستان نہ بھیج دے اس لئے وہ نہ یہاں پر کوئی روزگار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی موسیقی کے پروگرام میں شرکت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشاور پہنچنے کے بعد انہیں بمشکل مہنگے داموں پر کرایے کا مکان تو مل گیا لیکن اس مکان میں نہ تو زمین پر بچھانے کے لئے قالین تھا نہ پانی پینے کے لئے گلاس اور نہ ہی کھانا کھانے کے لئے پلیٹ یا کوئی ایک چمچ تھی، 'وہ رات میں کبھی  نہیں بھول سکتا؛ میرے بچے کابل میں ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں سوتے تھے لیکن یہاں وہ زمین پر سو رہے تھا اور میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میری بیوی کو گھر کی فکر تھی وہ اپنے سارے قیمتی کپڑے اور سامان وہاں چھوڑ آئی تھی اور میں رات کے اندھیرے میں نئی زندگی ڈھونڈ رہا تھا۔'

انہوں نے  الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ چند ماہ پہلے پشاور پولیس نے غیرقانونی طور پر مقیم  افغان پناہ گزینوں کی گرفتاری کیلئے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اور متعدد افغان فنکاروں کو گرفتار کر کے انہیں واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم  پولس کے اس عمل کے خلاف فنکار برداری  کے احتجاجی مظاہروں کے بعد پولیس  نے انہیں چھوڑ کر اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

گزشتہ سال 15 اگست کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان منتقل ہوئے ہیں؛ پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر آفریدی کے مطابق پاکستان میں اس وقت 14 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں جن میں زیادہ تر خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں جبکہ آٹھ لاکھ سے زیادہ ایسے ہیں جن کے پاس یہاں پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) کارڈ تو نہیں ہے لیکن ان کے پاس یہاں رہنے کے لئے درکار دستاویزات ہیں جبکہ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں غیررجسٹرڈ افغان بھی رہتے ہیں۔

غیرقانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزین پاکستان میں یا تو بیروزگار ہیں یا روزانہ کی اجرات پر مزدوری کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان پناہ گزینوں کی آبادی کا ایک تہائی خواندہ ہے اور 14 لاکھ میں صرف 22 اعشاریہ 5 فیصد معاشی طور پر فعال ہیں جبکہ زیادہ تر افغان پناہ گزین اس لئے قانونی/غیرقانونی طور پر منتقل ہوئے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں سے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جا سکیں تاہم قانونی اسناد نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہاں پھنس جاتے ہیں۔

دوسری جانب حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این امیگریشن کی جانب سے  جاری شدہ رپورٹ کے مطابق  2014 سے لے کر اب تک 50 ہزار سے زائد افراد غیرقانونی راستوں پر سفر کرنے کی وجہ سے  جان دے چکے ہیں جن میں زیادہ تر افراد کا تعلق افغانستان، شام اور میانمار سے ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ افراد میں 30 افراد کی شناخت نہیں ہوئی  ہے جبکہ ایشیاء کے 6 ہزار لاپتہ افراد میں 11 فیصد بچے بھی شامل ہیں۔

"ہم نئے افغان پناہ گزین پر بات نہیں کر سکتے"

اس حوالے سے جب افغان کمشنریٹ سے رابطہ کیا گیا کہ 15 اگست 2021 کے بعد کتنے لوگ افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئے ہیں، ان میں غیرقانونی افراد کی تعداد کتنی ہے اور اب تک پاکستان کی حکومت کتنے غیرقانونی افراد کو واپس اپنے ملک بھیج چکی ہے تو اس سوال کے جواب میں افغان کمشنریٹ  کے حکام نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ نئے "افغان پناہ گزین" کے بارے میں کمشنریٹ کی جانب سے کوئی موقف نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ابھی تک نہ تو پاکستان کی حکومت اور نہ ہی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ان افراد کو " پناہ گزین" کا درجہ دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر یہاں آئے ہیں جن میں زیادہ تر یہاں سے کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں جبکہ جو لوگ قانونی اسناد رکھتے ہیں وہ تو باہر جا سکیں گے  لیکن جو قانونی اسناد نہیں رکھتے وہ یہاں رہ جائیں گے جس کے بعد ان کو واپس ملک بھیجنے یا پناہ گزین کا درجہ دینے پر غور کیا جائے گا۔

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟

پشاور ہائیکورٹ کے سینئر وکیل آصف علی شاہ کے بقول پاکستانی قانون کے مطابق اگر کوئی غیرملکی غیرقانونی طور پر پاکستان داخل ہو جاتا ہے اور پولیس اسے گرفتار کر لے تو اس پر 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اس مقدمے کے خاتمے کا اختیار کسی بھی ادارے کے پاس نہیں ہوتا۔

انہوں نے بتایا کہ ملزم پر 14 فارن ایکٹ  لگ جانے کے بعد قانون کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا سوائے اسے ڈی پورٹ کرنے کا کیونکہ غیرقانونی طور پر مقیم فرد کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ خود پر لگنے والا مقدمہ کسی بھی عدالت میں چیینج کرے  اس لئے وہ مجبور ہے کہ اس فیصلے کو قبول کر کے واپس اپنے ملک چلا جائے۔

آصف کے بقول افغان پناہ گزین گزشتہ چالیس سالوں سے پاکستان آتے جاتے ہیں جن میں زیادہ تر لوگ قانونی دستاویزات نہیں رکھتے اس لئے پولیس قانون پر عمل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے واپس اپنے ملک ڈی پورٹ کرتی ہے تاہم اب بھی پشاور میں ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزین غیرقانونی طور پر مقیم  ہیں جس کی وجہ سے  انہیں وہ بنیادی حقوق نہیں دیئے جاتے جو رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو ملتے ہیں۔
مزیدخبریں