جنرل باجوہ اور ان کے ادارے کے دیگر افسران نے ' عمران خان کو ایک موقع ملنا چاہئیے' والی سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں ہر حربے کو استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔ اپنی آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا۔ ایک منتخب جمہوری حکومت کے وزیر اعظم کو جائز ناجائز مقدمات میں ملوث کر کے عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے ان کو اقتدار سے نکالنے میں فعال کردار ادا کیا۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما مقدمات کا سامنا کر رہے تھے یا جیلوں میں آ جا رہے تھے۔ تحریک انصاف کو کھیلنے کے لیے کھلا میدان ملا ہوا تھا۔ عمران خان کے بیرونی دوروں سے پہلے وہاں جنرل باجوہ جاتے تھے اور عمران خان کے لیے سازگار ماحول بناتے تھے پھر ان کا دورہ ہوتا تھا۔ جب آپ کسی کی حمایت میں اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا دیتے ہیں تو پھر آپ کو تیار رہنا چاہئیے کہ آپ جلد انہی لوگوں کے ہاتھوں تذلیل کا نشانہ بنیں گے جن کی حمایت میں آپ نے زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔
تحریک انصاف کے دور حکومت میں عوام اور ان کے لانے والوں کی توقعات کو شدید ٹھیس پہنچی۔ عمران خان کی حکومت اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی جس کارکردگی کے سبز باغ دکھا کر وہ حکومت میں آئے تھے۔ اب اس حقیقت کو خود عمران خان اور ان کے حمایتی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت چلانے کے لیے ان کی تیاری نہیں تھی۔ جب کارکردگی کے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے تو عوام کا زیادہ تر طبقہ تحریک انصاف پر تنقید کرنے کے بجائے پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں پر تنقید کر رہا تھا کہ یہ حکومت لانے والی فوج تھی۔ پنجاب میں بزدار حکومت نے تو تحریک انصاف کی کارکردگی کو چار چاند لگا دیے۔ عمران خان نے حکومت جانے کے بعد یہ کہا کہ جنرل باجوہ نے بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا مشورہ دیا تھا جو انہوں نے نہ مانا جس کی وجہ سے ان کے اور جنرل باجوہ کے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو جنرل باجوہ تحریک انصاف کے ساتھ دیانت داری کے ساتھ چل رہے تھے کیونکہ تحریک انصاف کے کارکنوں سے لے کر رہنماؤں تک سب اس بات پر زور دے رہے تھے کہ بزدار کی جگہ کسی مؤثر آدمی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جائے تا کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارٹی کی ساکھ بھی بہتر ہو سکے۔ مگر عمران خان جنرل باجوہ، اپنی پارٹی اور عوام کے پریشر کے باوجود بزدار کو ہٹانے کی گستاخی نہ کر سکے کیونکہ اس سے ان کو اپنے گھر کی اسٹیبلیشمنٹ کی ناراضگی کا خطرہ تھا۔
جنرل باجوہ کو اس بات کی فکر لاحق ہونا شروع ہو گئی تھی کہ عوام کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے اور ان کو نظر آ رہا تھا کہ اس حکومت کی ناکامی دراصل اسٹیبلشمنٹ اور جنرل باجوہ کی ناکامی ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے 16 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ میں جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'عمران نیازی کی حکومت کی تباہ کاریوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب یہ سوغات آپ کی دی ہوئی ہے، آپ ہی اس مصیبت کی ماری ہوئی قوم کی پریشانیوں کے موجب ہیں'۔ جو بات نواز شریف نے کہی تھی یہ بات اب زبان زد عام ہو چکی تھی۔ اس لیے جنرل باجوہ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی بہتر ہو تا کہ ان کا کچھ بھرم رہ جائے مگر تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔
جب جنرل باجوہ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے اور یہ حکومت دن بدن حالات خراب سے خراب تر کرتی جا رہی ہے تو انہوں نے وسیع تر قومی مفاد میں اپنے عمرانی پراجیکٹ کو سمیٹنے کا منصوبہ بنایا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جنرل باجوہ نے عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں سے دلبراشتہ ہو کر کہا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ آپ اتنے نااہل ہیں تو آپ کو کبھی حکومت میں نہ لے کر آتے۔ اس کے بعد تحریک عدم اعتماد آئی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل باجوہ کے ساتھ عمران خان اور ان کے شتر بے مہار گالم گلوچ بریگیڈ نے جو کچھ کیا وہ سب اسی بدولت تھا کہ ان کو پتہ تھا کہ جنرل باجوہ ان کی حمایت میں کس حد تک گئے تھے بس ان کو غم وغیظ اس بات کا تھا کہ جنرل صاحب اب ایسا کیوں نہیں کر رہے۔ اور جنرل باجوہ کی خاموشی بھی اسی بدولت تھی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں سے زخم کھا رہے تھے۔
جنرل باجوہ کا برا وقت تبھی شروع ہو گیا تھا جب انہوں نے اپنی غلطی کو سدھارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کو ضرور اس بات کا ادراک ہو گا کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو اکثر محسنوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ ان کے ضمیر پر ایک بوجھ سوار تھا جس سے وہ آزادی حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔ ضمیر کی آواز سننے اور غلطی کو سدھارنے کی ایک بھاری قیمت ہوتی ہے جو باجوہ صاحب کو جاتے جاتے ادا کرنا پڑی۔