بادشاہ مر گیا، بادشاہت زندہ باد!

بادشاہ مر گیا، بادشاہت زندہ باد!
'جس کا ڈر تھا وہی ہوا یارو' لیکن ہم ہی کتنے سادے ہیں کہ نہ خیال بدلا اور نہ آس کیونکہ ہمارے پاس 'گزارا کرو اور اللہ خیر کرے گا' کی صورت میں دو بڑے شاک ابزوربرز (Shock Absorbers) ہیں۔ کرے تو کیا کرے، کمزور اور بے بس تو صرف بددعا اور گالیاں دے سکتا ہے یا پھر اندر کی توڑ پھوڑ کی قیمت پر قاتل خاموشی پر اکتفا کر سکتا ہے۔ خیر مکمل خاموشی کا آپشن تو شعوری طور پر دیا بھی نہیں جا سکتا بلکہ اپنے راگ سے ہم آہنگ شور کو برپا کرکے ہر دھڑکن و خیال کو قابو کیا جاتا ہے۔ اس راگ کو الاپنے کے لیے کرایے کے صحافی اور دانش وروں کی فوج ظفر موج ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔

ہز میجسٹی مائی باپ جنرل باجوہ خیر سے ریٹائر ہو گئے ہیں اور ہمارا نیا عالی جاہ مسند جلیلہ پر رونق افروز ہو چکا ہے۔ صورت حال پشتو کی اس حکایت 'لا لا په سا راځه په سا ابئي مړه ده او مال ته خیر دې' (بھائی سکون سے آؤ، صرف ماں جی مر گئی ہیں باقی تو سب خیر خیریت ہے) جیسی بن گئی ہے۔ سیاسی انجینیئرنگ کے نیتجے میں ملک مالی، معاشی، سیاسی، سفارتی، سماجی اور اخلاقی طور پر صرف دیوالیہ ہی تو ہوا ہے، کوئی قیامت تو برپا نہیں ہو گئی۔ بس اتنی سی تو بات ہے۔ اس پر شور مچانے، گڑے مُردے اکھاڑنے اور لعن طعن کرنے کی کیا ضرورت بھلا۔ کھیل کی وہ قسط ختم اور پیسہ موصول ہو کر جانے کون کون سے ملکوں میں موجود محفوظ کھاتوں میں کب کا پہنچ کر ہضم بھی ہو چکا ہے۔ ماضی میں جن کی ایک لمحے کی غیر موجودگی ملکی سلامتی اور مفادات کو خطرے میں ڈال سکتی تھی، وہ روایتی عدت گزارے بغیر ہی باقی زندگی عیش و راحت سے گزارنے کے لیے نئے وطن کا انتخاب بھی کر چکے ہیں۔

جہاں تک حساب کتاب کی بات ہے تو ہمارا قانون اور نظام انصاف اس قسم کے احتساب اور انصاف کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ اس نظام میں مرحوم و مغفور جسٹس وقار سیٹھی اور زندہ و جاوید جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے لوگ کسی ادارہ جاتی غلطی کی وجہ سے در تو آتے ہیں مگر پھر بہت قسمت اور مشکل سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح بال بال بچتے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر قاضی صاحب قاضی القضاء کی مسند تک پہنچ بھی جاتے ہیں تو ابھی سے لگ رہا ہے کہ اپنے آپ کو بھیڑ میں اکیلا ہی پائیں گے کیونکہ موجودہ سپریم کورٹ میں پاناما گردی والی ذہنیت اور بندوبست اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بادی النظر میں تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اب بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی عدالت عالیہ سے عدالت عظمیٰ کے لیے ججوں کو ترقیاں دینے میں کافی احتیاط اور عرق ریزی سے کام لیا جا رہا ہو گا کہ اگر کہیں وقار سیٹھی اور فائز عیسیٰ جیسے چار پانچ اور سر پھرے عدالت عظمیٰ میں پہنچ گئے تو ناجانے پھر کیا کیا گل کھلائیں گے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن قارئین میرا بھی قصور نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال میں کون ٹو دی پوائنٹ رہ سکتا ہے کیونکہ سیاسی حالات نیوکلیائی صورت اختیار کر چکے ہیں جن کے پیدا کردہ تابکاری خیالات کو کالم کے تنگ دامن میں سمونے لیکن نیوکلیئر سیاسی خیالات کے عدم پھیلاؤ کو یقینی بنانے والی حاضر و ناظر ایجنسیوں کی نظروں سے بچانے کی سعی لا حاصل بھی نہایت ضروری ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا لیکن پھر بھی میں حامد میر، سلیم صافی، جاوید چودھری، نجم سیٹھی وغیرہ نہ بن سکا کیونکہ اپنی تو کوئی نوکری ہے اور نہ ہی کوئی اینکرشپ، نہ کوئی بھاری بھرکم تنخواہ، نہ شہرت، نہ اقتدار کے ایوانوں میں طاقت وروں کے ساتھ راہ و رسم، اس لیے کم از کم اعتدال اور غیر جانبداری کے نام پر یہ نہیں کر سکتا کہ؛

؎عجب تیری سیاست (صحافت)، عجب تیرا نظام
یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام

ہاں خاموشی کی بات ہو رہی تھی۔ میرے بھائی خاموشی بھی خطرناک ہوتی ہے کیونکہ 'خاموشی بھی ایک زبان ہوتی ہے' اس لیے خاموشی نہیں ہونی چاہئیے لیکن بے قابو شور بھی نہیں ہونا چاہئیے لہٰذا یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ کس نے بولنا ہے، کب بولنا ہے، کیا بولنا ہے اور کتنا بولنا ہے۔ اس لیے اب پھر سے ہر طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ادارے (محکمہ) پر نہیں فرد پر تنقید ہونی چاہئیے، عمل یا کرتوت پر نہیں بلکہ الفاظ پر بات ہونی چاہئیے۔ کہا جا رہا ہے کہ فرد کے نام کے ساتھ اس کے عہدے اور محکمے کی نسبت نہیں جوڑنی جو اصل میں اس فرد کی طاقت کا منبع تھا اور فرد اسی طاقت کے بل بوتے پر سب کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ چپ رہیں کیونکہ شور ڈالیں گے تو اس سے محکمہ کے وقار اور رینک اینڈ فائل پر برا اثر پڑنے کا احتمال ہے۔ اگر پھر بھی آپ کچھ کہے بنا نہیں رہ پا رہے اور آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں تو پھر آپ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا صیغہ استعمال کر کے جو مرضی بولیں۔ وطن عزیز میں یہ القابات و مغلظات تو ہیں ہی اسی طبقے کے لیے۔

بھائی حیرانگی کی کوئی بات ہی نہیں ہے، شیطانی سیاسی انجینیئرنگ کا تو کمال ہی یہ ہے کہ عوام الناس کی نظر میں خالق نہیں بلکہ اس کی تخلیق قصوروار نظر آئے۔ تباہی کی صورت میں تختہ مشق پراڈکٹ کو بنایا جائے، پروڈیوسر کو نہیں۔ ہمارے جغادری صحافی بھی تو اب اسی تناظر میں احساس تفاخر سے بڑے بڑے انکشافات کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے مجھے جنرل باجوہ نے چار گھنٹے بریفنگ دی، دوسرا کہہ رہا ہے کہ گھنٹوں سیاسی گپ شپ ہوئی اور مجموعی طور پر تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ بیچارے جنرل صاحب نے پونے چار سال کتنی صبر آزما کوششیں کیں کہ کئی سالوں کی محنت شاقہ کے نیتجے میں تیار ہونے والی ادارے کی تخلیق یعنی پروڈکٹ کو کسی صورت چلایا جا سکے لیکن عمران خان تھا کہ بندے کا پتر ہی نہیں بن رہا تھا۔ او بھائی کم ازکم یہ تو سوچ لیتے کہ الٹے عمل کے نیتجے میں پیدا کردہ تخلیق سے سیدھا چلنے کی تمنا کیسے کی جا سکتی ہے۔ اوپر سے اپنی تخلیق کو اتنے اونچے بانس پر چڑھا دیا کہ وہاں سے ان کو باقی ہر چیز پست اور ہر شخص بونا نظر آنے لگا اور نظر بھی الٹا آنے لگا۔

یہ سوال بھی بنتا ہے کہ رواں سال فروری سے نومبر کے آخری ہفتے تک سیاسی عدم مداخلت اور غیر سیاسی ہونے کے نام پر بدترین سیاسی مداخلت کا ڈرامہ کس مقصد کے لیے رچایا گیا تھا۔ یہ تو اندھے کو بھی نظر آ رہا تھا کہ عمران خان کے تلوں میں مزاحمت کا تیل تھا ہی نہیں تو کون اور کیوں ان کو عدم اعتماد کے بعد ہیرو بنا کر پیش کر رہا تھا؟ کس مقصد کے لیے پی ڈی ایم کو دباؤ میں رکھ کر بکری بنانا ضروری تھا؟ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو 17 نشستیں دلوانے میں کیا سوچ کار فرما تھی؟ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے احتجاجی مارچ کی ناکامی کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعے پنجاب کی حکومت کو کیوں پی ٹی آئی کو واپس دے کر وفاقی حکومت کو چاروں اطراف سے گھیرنے کا انتظام کیا گیا؟ میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اے آر وائی، بول اور 92 نیوز وغیرہ جیسے پروپیگنڈا ہاؤسز کس کی آشیرباد سے نفرت اور جھوٹ کا زہر اگلتے رہے جو آج بھی جاری و ساری ہے؟ بے شمار مسخروں کو صحافیوں کے لبادے میں کون سے قومی مفاد میں ٹی وی سکرینوں پر بڑھاوا دیا گیا جو آج بھی پاکستان اور اس کی سیاست و صحافت کا منہ چڑا رہے ہیں؟

اس قسم کے سوالات پوچھنے کے بجائے ہمارے نابغہ روزگار صحافیوں نے وہی پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ مسئلہ فرد یا چند افراد ہیں، ادارہ نہیں۔ بھئی یہ کیسا ادارہ ہے جس کو ایک فرد یا چند افراد سال ہا سال تک اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا ادارہ، کوئی قانون یا عدالت ان کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتا، کسی کو بھی ان کا احتساب نہیں کرنے دیتا، کیا کوئی صحافی یہ سوال بھی پوچھ رہا ہے؟

احمد نورانی اگر دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ 6 سالوں میں جنرل باجوہ کے خاندان کے اثاثوں میں کھربوں روپوں کے اضافے کی خبر بریک کرتا ہے تو جواب ادارہ دیتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے 20 سالوں سے ہر آرمی چیف کو کھرب پتی اور ان کے حواریوں کو ارب پتی بننا ہوتا ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں جزیرے اور جائیدادیں خریدنی ہوتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد ملک چھوڑ کر سب کچھ بیرون ملک منتقل کر کے پیچھے سے ادارہ حساب کتاب کا کھاتہ بند کر دیتا ہے، پی ڈی ایم کو پی ٹی آئی بنا دیا جاتا ہے تو مداخلت کیسے ختم ہو گی؟ پاکستان ایک نارمل جمہوری مملکت کیسے بنے گی؟ اس ملک کے بدقسمت عوام غربت اور جہالت کی دلدل سے باہر کیسے نکلیں گے؟ علی وزیر جیسے لوگ جیل سے کیسے رہا ہوں گے؟ پختونوں اور بلوچوں کی سرزمین کب تک پراکسی جنگوں اور دہشت گردی کا میدان بنتی رہے گی؟

بادشاہ مر گیا، بادشاہت زندہ باد!

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔