نواز شریف کو عمران خان جیسی سہولت کاری مل رہی ہے؟

اداروں کے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے اور مداخلت کے فرق کو سمجھنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ایسی کسی غیر جانبداری کے بارے تحفظات ہوں تو اس کا آئینی و قانونی حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ الزامات کو سیاسی بیانیہ بنا کر عوام کو اداروں کے خلاف بھڑکایا جائے۔

03:44 PM, 12 Dec, 2023

ڈاکٹر ابرار ماجد

جمہوریت اور سہولت کاری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام اور سیاست دان یا سیاسی جماعتیں اپنی حمایت کا فیصلہ آزادی رائے سے کرتے ہیں جبکہ سہولت کاری میں دباؤ کے تحت حمایت دلوائی جاتی ہے۔ ہماری سیاست میں 2018 کے انتخابات میں یہ اصطلاح متعارف ہوئی تھی اور اب اس کے شواہد ایک کھلی کتاب کی صورت میں موجود ہیں جن کا اعتراف سہولت کاری مہیا کرنے والے خود بھی کر چکے ہیں۔

اسی پر احتجاج میں نواز شریف نے 'مجھے کیوں نکالا؟' کا بیانیہ اپنایا تھا جو بہت مقبول ہوا اور پھر نواز شریف کی مقبولیت سے خائف اس وقت کی مقتدرہ نے ان کو جیل میں ڈال دیا۔ اس کے ساتھ ہی انتخابات سے پہلے امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کا انتخابات کے دوران اور بعد میں بھی خاصا بندوبست دیکھنے کو ملا جسے موجودہ سیاسی منظرنامے میں تحریک انصاف کے بانی چیئرمین پر مقدمات اور ان کے ممبران کی طرف سے جماعت کو چھوڑنے کے واقعات کا موازنہ کر کے خدشات کی بنیاد پر مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی سہولت کاری سے جوڑا جا رہا ہے۔

اس میں بظاہر کافی حد تک مماثلت بھی دکھائی دیتی ہے لیکن اگر اس سیاسی منظرنامے کے کینوس پر 9 مئی کے وقوعے کو رکھ کر دیکھا جائے تو صورت حال کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔ جب ہم 9 مئی سے پہلے اور بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ لیں گے تو واضح ہو جائے گا کہ تحریک انصاف کے ساتھ موجودہ رویہ ان کے 9 مئی کے اقدامات کی وجہ سے ہے نہ کہ کسی سہولت کاری یا انتقام کا نتیجہ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ 9 مئی سے قبل تک عمران خان صاحب کا جو انداز، لہجہ اور الفاظ تھے جن میں ڈرٹی ہیری، میر صادق، میر جعفر حتیٰ کہ قتل کے مقدمے میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو ایف آئی آر میں ملوث کرنے کی درخواستیں اور فوج کے حاضر سروس جرنیلوں اور سربراہ کو دھمکیوں پر مشتمل بیانات جن کی پاکستان کی ماضی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، تک کے باوجود وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ بلکہ 9 مئی سے پہلے والے دورانیے کو بھی اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک وہ جو نومبر 2022 تک جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سے قبل کا ہے جس میں جنرل باجوہ کی توسیع کے بعد ہمدردیوں کے تناسب میں فرق ضرور آیا ہو گا مگر عمران خان کے فوج سے تعلقات میں فرق آ جانے اور اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے نتیجہ میں حکومت چلے جانے کے بعد جرنیلوں کی ٹرولنگ کے باوجود ان کے ساتھ ہمدردیوں کا رویہ غالب رہا۔

لہٰذا ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد ان کی سینیئر قیادت کا چھوڑنا بھی سمجھ میں آنا آسان ہو جاتا ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات کے نتائج کا بوجھ نہ اٹھاتے ہوئے ان کا ساتھ چھوڑ کر گئے ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ ن کی بجائے ایک نئی جماعت میں شمولیت اختیارکی ہے اور کچھ نے اپنی علیحدہ تحریک انصاف پالیمنٹیرین کے نام پر جماعت بنا لی ہے جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر مسلم لیگ کی حمایت یا سہولت کاری کی جا رہی ہوتی تو ان پر مسلم لیگ ن میں شمولیت کا دباؤ ڈالا جاتا۔ جیسا کہ 2018 میں واضح طور پر ممبران کی طرف سے دباؤ کا اعتراف سامنے آیا تھا جبکہ موجودہ منظرنامے میں ایک بھی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا۔

اسی طرح نواز شریف کو عدالتوں سے ملنے والے ریلیف کا خدشہ ظاہر کر کے انتخابات کو متنازع بنانے کا سلسلہ شروع ہے جس کا میں نے پہلے بھی دو کالموں میں ذکر کیا ہے۔ ان خدشات کے بے بنیاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جن مقدمات میں ریلیف مل رہا ہے ان میں نیب ماضی کے بندوبست کا وزن اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار نہیں اور ان مقدمات بارے عدلیہ کے اندر سے شواہد بھی سامنے آ چکے ہیں جن کی تردید نہ پہلے آئی ہے اور نہ ہی آج کوئی ان کو جھٹلا رہا ہے۔ جو حفاظتی ضمانت کی بنیاد پر حوالے دیے جا رہے ہیں اس کو اگر خاطر میں لایا بھی جائے تو وہ عمران خان کو مہیا کی گئی سہولتوں جن میں مستقبل کے مقدمات جن کا وجود بھی نہیں ہوتا تھا، میں ضمانتیں مہیا کی جاتی رہی ہیں جن پر سیاسی تبصرے تو کیا سپریم کورٹ میں ججز کے کمنٹس بھی حیرانگی اور شرمندگی کا اظہارکرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔

ماضی میں سہولت کاری عموماً فوج، نیب، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی طرف سے دیکھنے کو ملی ہے جن میں سے فوج کا ہم پہلے کافی حد تک جائزہ لے چکے ہیں اور موجودہ نیب کی نئی سربراہی میں ایک بھی نیا مقدمہ عمران خان کے خلاف نہیں بنایا گیا اور جہاں تک عدلیہ کی بات ہے تو اس پر عمران خان کو خود بھی کوئی اعتراض نہیں رہا بلکہ ستمبر 2023 تک تو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ماتحت عدلیہ میں ان کی ہمدردیوں کا تاثر غالب رہا ہے۔ جب تک سپریم کورٹ کی سربراہی جسٹس عمر عطاء بندیال کے پاس تھی اس وقت تک تو وہاں سے تکنیکی بندوبست کے ذریعے سے بنچز کی تشکیل سے عمران خان کی سہولت کاری اور پی ڈی ایم حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کا تاثر کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اس زمانے کی مشہور آڈیو لیکس کی گونج آج بھی ریاست کے مختلف ایوانوں میں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔

جب سے سپریم کورٹ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس آئی ہے اُن پر اب تک کہیں سے بھی انگلی نہیں اٹھی اور نہ ہی انہوں نے ذاتی طور پر عمران خان کا کوئی کیس سنا ہے اور نہ ہی اُن پر عمران خان کی طرف سے کوئی اعتراض سامنے آیا ہے۔

اسی طرح الیکشن کمیشن میں بھی جن مقدمات پر عمران خان کی نا اہلی ہوئی یا ان کے خلاف زیر سماعت ہیں ان میں کچھ تو ان کے اپنے ہی بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے ہیں اور باقی ان کی بحیثیت وزیر اعظم توشہ خانہ سے وصول کئے گئے تحائف کے متعلق ہے جس پر ثبوت اور شواہد سرکاری فائلوں کے ان کی اپنی سربراہی کے دور کے ریکارڈ پر مشتمل ہیں جس میں ان کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسران گواہ ہیں۔ یہاں میں عرض کرتا چلوں کہ اداروں کے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے اور مداخلت کے فرق کو سمجھنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ایسی کسی غیر جانبداری کے بارے تحفظات ہوں تو اس کا آئینی و قانونی حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ الزامات کو سیاسی بیانیہ بنا کر عوام کو اداروں کے خلاف بھڑکایا جائے۔

اگر عمومی طور پر بھی عمران خان اور ان کی جماعت کے قائدین پر مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو سائفر یا عدت میں نکاح کے سوا جو سیاسی نوعیت کے مقدمات بنائے گئے تھے وہ جلسوں کے دوران توڑ پھوڑ وغیرہ پر تھے جو معمولی نوعیت کے تھے مگر 9 مئی کے بعد کے مقدمات کا تعلق تو سیاسی نہیں بلکہ ریاست کے ایک دفاعی ادارے پر حملہ آور ہونے سے ہے جس کے شواہد کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کئے ہوئے ہیں اور جن کو جھٹلانے کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر ان پر کوئی نقطہ قابل بحث ہے بھی تو وہ یہ ہے کہ ان کی کارروائی فوجی عدالتوں میں ہونی چاہئیے یا سول عدالتوں میں جبکہ سول عدالتوں میں سزا کی نوعیت زیادہ سخت ہے۔

جہاں تک خدشات میں مسلم لیگ ن کے فوج سے تعلق کی طرف اشارے دینے کی کوشش ہے تو چونکہ اپریل 2022 سے لے کر اگست 2023 تک پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت رہی ہے اور وزارت عظمیٰ شہباز شریف کے پاس تھی تو ایک ریاستی ادارے کے طور پر ان کے تعلقات ایک آئینی تقاضا تھا اور جنرل عاصم منیر کی تعیناتی بھی اسی دوران ہوئی ہے اور اس دوران بحیثیت ریاست کے ادارے کے ان کی ذمہ داریوں پر اعتماد سب کے سامنے ہے مگر اس کو کسی طرح سے بھی موجودہ منظرنامے میں بغیر کسی ثبوت کے سہولت کاری سے جوڑنے کی الزام تراشیاں ادارے اور ریاست کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس کی تحقیقات حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ اس تاثر کو ختم کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

مزیدخبریں