پنجاب: غیر آئینی” زرعی آمدنی “ ٹیکس

مویشیوں سے حاصل ہونے والا کوئی بھی منافع اور فائدہ “زرعی آمدنی” نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پنجاب حکومت کو کس نے مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے قانون میں شامل کرے

08:57 PM, 12 Dec, 2024

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

اگرچہ پنجاب اسمبلی نے ایگریکلچر انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ 2024 منظور کیا، لیکن یہ زرعی انکم ٹیکس کی شرح کو 45 فیصد تک بڑھانے کے مطلوبہ ہدف کو ظاہر نہیں کرتا۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کسی بھی خلاف ورزی کی تردید کی اور کہا کہ نئے ترمیم شدہ صوبائی قانون نے قومی مالیاتی معاہدے کی ضروریات کو پورا کیا ہے۔ یہ کسی بھی قانون یا معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آئی ایم ایف کے وفد نے ترامیم پڑھی ہیں اور ان کے مطابق یہ ٹھیک ہیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کی گئی ہوتی تو آئی ایم ایف کا وفد اپنی دو دن کی میٹنگز کے دوران کہہ دیتا “- عظمیٰ زاہد بخاری، وزیر اطلاعات پنجاب
 اندرون اور بیرون ملک میڈیا رپورٹس، وزیر اطلاعات پنجاب کے حوالے سے یہ تاثر دیتی ہیں کہ پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2024 (XV of 2024) منظور کرتے ہوئے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ ایک خبر میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ صوبائی وزیر اطلاعات کے دعویٰ کے مطابق یہاں تک کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم نے پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس،1997 میں مجوزہ ترامیم کو پڑھا اور انکو “درست”پایا۔ اگر یہ دعویٰ سچ ہے تو اس سے نہ صرف صوبائی پارلیمان ، بلکہ آئی ایم ایف کے ماہرین (sic) کی اہلیت بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔
 اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 142(c) کےتحت، فورتھ شیڈول میں شامل وفاقی قانون سازی کی فہرست کے حصہ اول کے اندراج 47 کی روح سے “ زرعی آمدنی” پر ٹیکس لگانا صوبائی اسمبلیوں کا ہی استحقاق ہے، سوائے ان علاقوں کے جو وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں، جنہیں اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (ICT) یا فیڈرل کیپیٹل کہا جاتا ہے —اس کے لئے دیکھیں آئین کا آرٹیکل 1(b)۔
قومی اسمبلی “ زرعی آمدنی” کے علاوہ ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس لگا سکتی ہے، جیسا کہ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ (FLL) کے حصہ اول کا اندراج 47 کہتا ہے: “ آمدنی پر ٹیکس ما سوائے ‘ زرعی آمدنی’ کے”۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ فیڈرل کیپیٹل کے اندر، قومی اسمبلی کو “ زرعی آمدنی” پر انکم ٹیکس لگانے کا خصوصی اختیار حاصل ہےجوکہ آئین کے آرٹیکل 142(d) میں دیا گیا ہے: “مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کو فیڈریشن کے ایسے علاقوں سے متعلق تمام معاملات کے حوالے سے قانون بنانے کا خصوصی اختیار حاصل ہوگا جو کسی صوبے میں شامل نہیں ہیں”۔
آئین کی روح سے ‘ زرعی آمدنی’ کیا ہے۔ اس کا جواب آئین کے آرٹیکل260 میں دیا گیاہے، جس کو دیکھنے کی زحمت معزز ممبران تو کیا، پنجاب اسمبلی کے زیرک قانون دان محترم اسپیکر نے بھی نہیں کی۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل260 کے مطابق ‘ زرعی آمدنی ‘کی تعریف وہ ہی ہو گی جو کہ وفاقی انکم ٹیکس سے متعلق قانون میں اس مقصد کے لیے بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک خصوصی اور حتمی تعریف (exhaustive definition)ہے ،جس کا مطلب ہے کہ اس کو کوئی دوسرے معنی نہیں دیئے جا سکتے ، سوائے انکم ٹیکس سے متعلق قانون کے مقصد کے، جو اس وقت انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 ہے۔
 انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کا سیکشن 41 مکمل طور پر اس کی وضاحت کرتا ہے کہ دستور پاکستان کی تحت ٹیکس لگانے کے لئے’ زرعی آمدنی ‘ کیا ہے۔ اگر اس وضعِ انداز میں ‘ زرعی آمدنی’ کی وضاحت دستور پاکستان میں نہ کی جاتی تو وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کےدرمیان اس پر قانون سازی میں اِختلافات رہتے۔ اس قدر سادہ قانونی وضاحت کی موجودگی میں بھی بد قسمتی سے پنجاب اسمبلی نے پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ2024 منظور کرتے ہوئے اس کا قطعی خیال نہیں رکھا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارےقانون ساز ادروں میں آئین کی کتنی سمجھ بوجھ اور پاسداری ہے۔
 یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آئین کی واضح دفعات اور مساوات کے اصول کے باوجود کسی بھی صوبائی حکومت نے کبھی بھی دولت مند اور غیر حاضر زمینداروں سے وفاقی انکم ٹیکس کے تحت لاگو شرحوں کی مطابق “ زرعی آمدنی” پر ٹیکس وصول کرنے کی طرف دلجسپی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ تو اب بھی مائل نہیں، مگر کیا کریں کہ آئی ایم ایف کا سخت دباؤ ہے۔ مقامی ماہرین اور مصنفوں کے لکھنے پر کسی بھی سیاسی جماعت اور صوبائی حکومت نے کبھی توجہ نہ دی مگر بیرونی آقاؤں کا حُکم ملتے ہی برف پگھل گئی۔ اس پر سوائے اظہار افسوس کے کیا کیا جا سکتا ہے۔
زرعی انکم ٹیکس کے لیے غیر زرعی آمدنی پر مروجہ وفاقی انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے ذاتی اور کارپوریٹ کی شرحوں کے مساوی وصولی نہ کرنے کی بے حسی اور اس کے مضمرات پر مورخہ اگست2 ،2024 کے مضمون میں تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔
آئی ایم ایف نے 7 بلین امریکی ڈالر، 37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) جاری پروگرام میں شرط عائد کر رکھی ہے کہ تمام صوبے زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرحوں کے مساوی ٹیکس وصول کریں گے۔
 آئی ایم ایف کی جانب سے اس ضمن میں صوبوں کے لیے 31 اکتوبر 2024 تک زرعی انکم ٹیکس کے ترمیمی قوانین کے نفاذ اور یکم جنوری 2025 سے وصولی کے لیے مقرر کردہ ڈیڈ لائن کو پہلے ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ نئی تاریخیں بالترتیب 31 دسمبر 2024 اور یکم جولائی 2025 ہیں۔
 ایک خبر کے مطابق، “ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا ٹیکس شارٹ فال اور غیر ملکی قرضوں کو پورا کرنے کے لئے بیرونی فنڈز میں تاخیر آئی ایم ایف کے اہم خدشات کے طور پر سامنے آئی ہیں، جبکہ پنجاب کے ایگریکلچر انکم ٹیکس قانون میں حالیہ ترامیم بھی مکمل طور پر وفاقی انکم ٹیکس قانون سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان میں قومی مالیاتی معاہدے (National Fiscal Pact) سے انحراف بھی کیا گیا ہے “۔
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ نئے ترمیم شدہ صوبائی قانون نے “قومی مالیاتی معاہدے کی ضروریات” کو پورا کیا ہے ، حکومت پنجاب کا آج تک موقف یہ ہے کہ کسی قانون/معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ 15 نومبر 2024 کو پنجاب اسمبلی سے منظور شدہ پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ، 2024 (XV of 2024) کو نافذ کرتے ہوئے ملک کے اعلی ترین قانون (دستور پاکستان ) کی کچھ خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ 5 دسمبر کی ایک خبر میں اس پر مناسب طور پر روشنی ڈالی گئی ہے: “پنجاب ایگریکلچر انکم ٹیکس ایکٹ ،2024 کے ذریعے، پنجاب اسمبلی نے لائیو سٹاک کی آمدنی پر ٹیکس لگا کر مرکز کے آئینی حق سے تجاوز کیا ہے”۔
 پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ ،2024 (XV of 2024) کے ذریعے “ زرعی آمدنی” کی تعریف (definition) میں شامل کیے گئے نئے اضافے میں “مویشیوں (livestock) سے آمدنی” بھی شامل ہے۔ لفظ “مویشیوں” (livestock) کی ترمیمی ایکٹ میں کلی (exclusive) تعریف بھی شامل کی گئی ہے جس کا مطلب ہے: “مویشی، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑا اور دوسرے مفید جانور جو آمدنی کے لیے رکھے گئے یا پالے گئے ہیں”۔ ایسا کرکے، پنجاب اسمبلی نے آئین کے فورتھ شیڈول میں شامل وفاقی قانون سازی کی فہرست کے حصہ اول کے اندراج 47 کی صریح خلاف ورزی کی ہے کیونکہ یہ “ زرعی آمدنی” نہیں ہے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 260 کے تحت زرعی آمدنی” کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے آئین کے آرٹیکل 142(c) کی روح سے اس پر ٹیکس لگانے کا حق وفاق کو ہے نہ کہ صوبائی اسسمبلیوں کو۔
آئین کے آرٹیکل 260 کے مقصد کے لیے، انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 41 میں موجود “ زرعی آمدنی” کی تعریف درج ذیل ہے:
 ” 41  (2) ” زرعی آمدنی“ کا مطلب ہے-
 (a) کسی شخص کی طرف سے پاکستان میں واقع اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین سے حاصل کردہ کوئی کرایہ یا محصول؛
 (b) پاکستان میں واقع زمین سے کسی شخص کی حاصل کردہ کوئی آمدنی:-
 (i) زراعت؛ 
 (ii) کسی کاشت کار یا وصول کنندہ کی طرف سے کسی بھی قسم کے کرائے کے عمل کی کارکردگی جو عام طور پر اس شخص کے ذریعہ اٹھائی گئی یا وصول کی گئی پیداوار کو مارکیٹ میں لے جانے کے قابل ہو؛ یا
 (iii) کسی کاشت کار یا وصول کنندہ کی طرف سے ایسے شخص کی طرف سے اٹھائی گئی یا وصول کی گئی پیداوار کی کرایہ پر فروخت، جس کے سلسلے میں ذیلی شق (ii) میں بیان کردہ نوعیت کے عمل کے علاوہ کوئی عمل انجام نہیں دیا گیا ہے۔ ; یا
 (c) کسی شخص کی طرف سے حاصل کردہ کوئی آمدنی
 (i) شق (a) یا (b) میں بیان کردہ کسی بھی زمین کا کرایہ یا محصول وصول کرنے والے کی ملکیت اور اس کے زیر قبضہ کوئی عمارت
 (ii) کوئی عمارت جس پر کاشتکار، یا کرایہ وصول کرنے والے کے زیر قبضہ، کسی بھی زمین کی، جس کے سلسلے میں، یا جس کی پیداوار، (b) شق کی ذیلی شق (ii) یا (iii) میں بیان کردہ کوئی کارروائی جاری رکھا جاتا ہے، لیکن صرف اس جگہ پر جہاں عمارت چل رہی ہے، یا زمین کے قریبی علاقے میں اور ایک ایسی عمارت ہے جس کا کرایہ یا محصول وصول کرنے والا، یا کاشتکار، یا زمین کے ساتھ فرد کے تعلق کی وجہ سے کرایہ وصول کرنے والے کو رہائش گاہ، سٹور ہاؤس، یا دوسری عمارت کے طور پر درکار ہے۔
مندرجہ بالا خصوصی تعریف میں بیان کردہ “ زرعی آمدنی” پر وفاق ٹیکس نہیں لگا سکتا اور صوبائی قانون سازی میں اس سے انحراف ممکن نہیں۔ یہ تعریف کسی بھی طرح مویشیوں سے حاصل کردہ آمدنی پر صوبائی انکم ٹیکس لگانے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی جو اس کے واضح دائرہ کار سے باہر ہے۔
برصغیر میں انکم ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے قانون کی سادہ زبان اور مقدمات کی روشنی میں اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ مویشیوں سے حاصل ہونے والا کوئی بھی منافع اور فائدہ “ زرعی آمدنی” نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پنجاب حکومت کو کس نے مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے قانون میں شامل کرے، جو کہ آئین کے خلاف ہے، اس لیے اسے ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے پر کالعدم قرار دیا جائے گا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 41 میں موجود تعریف [اوپر پیش کی گئی] صدر پاکستان کی پیشگی منظوری کے بغیر پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 162 میں بیان گیا ہے: 
”کوئی بل نہیں۔ یا ترمیم جس میں ٹیکس یا ڈیوٹی عائد ہوتی ہے یا اس میں فرق ہوتا ہے جس کی خالص آمدنی کا پورا یا کچھ حصہ ہے کسی بھی صوبے کو تفویض کیا گیا ہے، یا جو انکم ٹیکس سے متعلق قانون سازی کے مقاصد کے لیے بیان کردہ اظہار “ زرعی آمدنی” کے معنی میں فرق رکھتا ہے، یا جو ان اصولوں کو متاثر کرتا ہے جن پر اس باب کی مذکورہ بالا دفعات میں سے کسی کے تحت، رقم یا صوبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، صدر کی سابقہ منظوری کے علاوہ قومی اسمبلی میں متعارف یا منتقل کیا جائے گا”۔
آئین کے آرٹیکل 70(4)، آرٹیکل 141 اور آرٹیکل 142 کے تحت اپنے قانون سازی کے اختیارات کا تعین کرتے ہوئے وفاق اور صوبے دونوں انکم ٹیکس قانون میں فراہم کردہ “ زرعی آمدنی” کی تعریف پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2024 (XV of 2024) نے لائیو سٹاک سے آمدنی کو شامل کرکے ان دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔
پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2024 (XV of 2024) میں ٹیکس کی شرحوں کے تعین کے لیے ایگزیکٹو (صوبائی کابینہ) کو اختیارات دینا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 77 کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ٹیکس لگانے اور اس کی شرح مقرر کرنےکے اختیار کو انتظامیہ کو تقویض نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات پریشان کن ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے حکمران جماعت کے اراکین نے پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2024 (XV of 2024) منظور کرتے ہوئے آئین کی مندرجہ بالا سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں، ان ترامیم کی تیاری میں نااہل بیوروکریٹس کا ہاتھ لگتا ہے۔
 ترامیم کو عوامی بحث اور پیشہ ورانہ اداروں اور ٹیکس ماہرین سے رائے حاصل کرنے کے لیے عام نہیں کیا گیا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے نگرانی اور/یا مدد، اگر موجود تھی، تو یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ہمارے آئینی فریم ورک کے بارے میں کتنا کم جانتے ہیں۔
1997 سے، جب پاکستان میں پہلی بار زرعی انکم ٹیکس ایک فوجی آمر کے دور میں صوبوں کی طرف سے نافذ کیا گیا تھا، یہ حقیقت ہے کہ چند افراد کو چھوڑ کر، تمام صوبے لینڈ ٹیکس (land tax) وصول کر رہے ہیں نہ کہ زرعی آمدن پر اسی انداز میں ٹیکس جو وفاق غیر زرعی آمدن پر وصول کرتا ہے۔
امید ہے کہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلیاں اپنے زرعی انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم کرتے وقت ، جس کے لئے قومی مالیاتی معاہدے پر مرکز اور چاروں صوبوں نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت دستخط کیے ہیں ، پنجاب مقننہ کی کی گئی غلطیوں سے گریز کریں گی۔

مزیدخبریں