کل عبدالقادر پٹیل نے جس گھٹیاپن کا مظاہرہ کیا اور اس سے پہلے جو اس قسم کی زبان کا استعمال تقریباً ہر جماعت کی جانب سے کیا جا چکا ہے، تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں ہم نے ووٹ کیوں دیا تھا؟ کیا جگتیں مارنے، شعر و شاعری کرنے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کے لیے انہوں نے ہم سے ووٹ لیے تھے؟ ان کا کام قانون سازی اور ہماری نمائندگی ہے تو انہوں نے کون سا ایسا قانون بنایا جس سے ہمارے گھروں کی روشنیاں اور ہمارے چولہوں کی لو روشن ہوئی؟ کبھی اس پارلیمنٹ میں عدالت اور دھوبی کی آواز ہوتی ہے، کبھی کسی کی تقریر کے دوران اوئی اوئی کی آواز ہوتی ہے، کبھی بے شرم، بے حیا تو کبھی ٹریکٹر ٹرالی۔ جو آواز کبھی نہیں ہوتی، وہ غریب کی آواز ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ قانون سازی اور متعلقہ کام ہے۔
یہ پہلےچیختے ہیں کہ دوسرے کام نہیں کر رہے۔ اپنی باری آتی ہے تو روتے ہیں کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ کبھی انہیں خلائی مخلوق سے تکلیف ہوجاتی لیکن ایکسٹنشن بل پر متفق ہونے کے وقت یہ تکلیف رفع ہوجاتی ہے۔ بھٹو زندہ ہے بول بول کر سندھ کی روح قبض کرنے والوں کی جمہوریت پسندی، سینیٹ کے انتخابات کے وقت مر جاتی ہے۔ مدینہ بنانے کے خواہشمند، ساہیوال اور صلاح الدین کو خون کے داغ دامن پر لیے کب تک پھریں گے؟
ہم نے آپ کو ووٹ دیا ہے کام کرنے کے لیے۔ باتیں تو ہم گھروں میں بھی بہت کر لیتے ہیں۔ باتیں بنانے سے مسائل حل ہونے ہوتے تو محلے کا نائی اور نان بائی آدھی دنیا کو سدھار چکے ہوتے۔
مراد سعید نے کون سی محنت کی ہے، عمران خان کے شوق کیا ہیں، زرداری کے گھوڑے اور نواز شریف کے فلیٹس کتنے ہیں۔ ان باتوں پر غریب آدمی لعنت تک نہیں بھیجتا۔ غریب آدمی کو روٹی کے دام، گیس کی بندش، پٹرول کی قیمت، بچوں کی فیس، ہسپتالوں کے اخراجات متاثر کرتے ہیں۔ لہٰذا عبدالقادر پٹیل اور ان جیسے لوگ اور ایسی زبان کو پسند کرنیوالوں کو اصل مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ گھٹیا جگتیں ہم انٹرنیٹ پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اور اگر بچے ہوئے سالوں میں بھی پارلیمنٹ کا کاروبار اسی طرح چلانا ہے تو اگلی الیکشن مہم کے دوران نعرے کچھ یوں لگائیے گا، میں سب سے بڑا بدزبان ہوں، اس لیے ووٹ کا حقدار ہوں۔