ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو بتایا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہ صرف ان کا لین دین کے لئے مذاکرات کا عمل روک دیا گیا ہے بلکہ مستقبل قریب میں اس کے سنگین مضمرات سامنے آنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے، کیونکہ مقتدر حلقے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں نقب لگانے جا رہے ہیں، اور چوہدری برادران کی کوششوں سے پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی عددی اکثریت مزید سکڑ جانے کا خطرہ ہے۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کے صدر کو یہ بھی باور کروایا گیا ہے کہ پارٹی میں نواز شریف کیمپ کی طرف سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو پارلیمنٹ اور پارٹی سیاست میں ری لانچ کئے جانے کا امکان ہے، جن کے جلد جیل سے باہر آنے اور پارلیمنٹ اور پارٹی کی صفوں، بالخصُوص پارلیمانی حلقوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔
اس کے علاوہ مریم نواز کی حالیہ خفیہ سرگرمیاں ان کے مؤقف، بیانیہ اور پارٹی میں اس کے حامی و ہم خیال گروپ کو مزید ذک پہنچا سکتی ہیں۔ اسی تناظر میں پنجاب میں ان کے رفیق کار رانا ثنااللہ بھی بے قابو ہوتے جا رہے ہیں جن کا نہ صرف مریم نواز کی طرف جھُکاؤ دکھائی دینے لگا ہے بلکہ لہجہ بھی پھر سے دن بدن جارحانہ ہوتا جا رہا ہے، جس سے ایک طرف تو پارٹی میں ان کا ہم خیال گروپ کمزور ہونے لگا ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کے امکانات سرے سے ہی معدوم ہو جانے کا خدشہ ہے۔
ذرائع کے مطابق شہباز شریف سے کہا گیا ہے کہ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں پارٹی پر ان کی گرفت مزید کمزور ہو جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور پارٹی کے اندرونی تضادات، داخلی خلفشار اور سالمیت سمیت ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ان کی پاکستان میں موجودگی ناگزیر ہے کیونکہ وہ پارٹی کے صدر ہیں۔
ذرائع کا خیال ہے کہ شہباز شریف جو اس وقت لندن میں اپنے سب سے اہم سپورٹ ستون اور پارٹی میں اپنی واحد متحرک حریف مریم نواز کے سب سے بڑے مخالف چوہدری نثار علی خاں سے اہم مشاورت میں مصروف ہوں گے، اپنے ہم خیال گروپ کی بالادستی اور پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی بابت ضروری حکمت عملی تشکیل دینے والے ہیں تاکہ وہ ایک ٹھوس ورک پلان کے ساتھ واپس پاکستان پہنچیں، جس کے بعد نہ صرف مریم نواز کو ملک سے باہر بھجوانے کی راہ ہموار کرنے کی کوئی مؤثر کوشش کی جاسکے بلکہ مقتدر حلقوں کے ساتھ گفت و شنید کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی سعی بھی کی جائے۔