مالی سال 2019-20 کے لئے ابتدا میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر کا ریونیو ہدف 5503 ارب روپے رکھا گیا تھا جو کہ بعد ازاں آئی ایم ایف کی رضامندی سے 5238 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔ اس طرح ہدف میں 265 ارب روپے کی کمی پہلے ہی کی جا چکی تھی اور جولائی تا دسمبر یعنی پہلی شش ماہی کا ہدف بھی کم ہو کر 2198 ارب روپے رکھا گیا تھا لیکن دسمبر 2019 کے اختتام تک ایف بی آر اس ہدف کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہوئے صرف 2080 ارب روپے ہی جمع کر پایا تھا۔ اور تقریباً اسی وقت سے ایف بی آر چیئرمین شبر زیدی سے متعلق افواہیں گرم تھیں کہ وہ عہدے پر برقرار نہیں رہ سکیں گے۔
معاشی پالیسی ہے ہی نہیں
مگر سارا الزام شبّر زیدی کے سر منڈھنا درست نہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے ریونیو کلیکشن کے اہداف ہی غیر حقیقی تھے۔ بلکہ حکومت کا تو اپنا کوئی ہدف یا پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں۔ جو کچھ بھی ہے، آئی ایم ایف کی مرضی اور منشا ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسی کے نام پر ایک آئی ایم ایف پروگرام جاری ہے اور گورنر سٹیٹ بنک سے لے کر مشیرِ خزانہ تک معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سابقہ ملازمین کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں تک کہ کچھ روز قبل وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سے ایک پروگرام میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کوئی منی بجٹ لانے جا رہے ہیں تو موصوف نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا کہ آئی ایم ایف کا وفد کل آ رہا ہے، ان سے بات ہوگی، پھر ہی پتہ چلے گا۔ اب خبر آ رہی ہے کہ ریونیو کلیکشن کا ہدف آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات کے بعد مزید کم کر کے 4.8 کھرب روپے کر دیا گیا ہے۔
معیشت پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اکبر زیدی نے بھی ڈان اخبار کے لئے اپنے 11 فروری کے کالم میں لکھا ہے کہ تحریکِ انصاف حکومت کی کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے اور اسے ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ اسے معاشی پالیسی آئی ایم ایف کی طرف سے بنی بنائی مل رہی تھی۔ حکومت کی معاشی پالیسی آئی ایم ایف ہی کی پالیسی ہے جو خود کار انداز میں چلتی جا رہی ہے۔ جیسا آئی ایم ایف کہتا ہے، ویسا کریں اور کرنٹ اکاؤنٹ کو بہتر ہوتا دیکھیں۔ کم از کم گذشتہ دس ماہ کی کارکردگی سے تو یہی نظر آتا ہے۔ سود کی شرح، بلوں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ حکومت نے معاشی پالیسی کی مد میں کچھ زیادہ نہیں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈویلپمنٹ پی ٹی آئی کے معاشی پروگرام میں کہیں نظر ہی نہیں آتی۔
شبّر زیدی کو لگانے کا فیصلہ روزِ اول سے ہی متنازع تھا
شبر زیدی کے لئے بھی عمران خان صاحب، ان کے حواریوں اور سوشل میڈیا پر موجود ان کے عشاق کے دستوں نے عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے تھے۔ اب وہ خواب بھی بیماری کا بہانہ بنا کے گھر بیٹھ چکے ہیں۔ شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین لگانے کا فیصلہ روزِ اول سے ہی ایک متنازع فیصلہ تھا۔ ایف بی آر میں موجود افسران میں یہ لطیفہ مشہور تھا کہ ایک ایسا شخص جس کا کاروبار ہی لوگوں کو ٹیکس بچانے کے طریقے بتانا ہو، اسے ٹیکس جمع کرنے کا کام سونپنا بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانے کے مترادف ہے۔
شبر زیدی کا استعفا اور ملک کی مجموعی معاشی صورتحال
شبر زیدی کا استعفا عمران خان حکومت کی ایک اور ناکامی کا اعتراف ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں حکومت 11 ہزار ارب روپے کے قرضے لے چکی ہے۔ ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق معاشی ترقی کی شرح 2 فیصد سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ ستمبر 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی کل ورک فورس میں سے تقریباً 30 فیصد افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ آٹے اور گندم کے بحران کے بعد چینی بحران نے بھی عوام کے خوب ہوش ٹھکانے لگائے اور مہنگائی کا حال یہ ہے کہ وزیر اعظم اور صدرِ پاکستان خود کہہ چکے ہیں کہ ان کی تنخواہ میں ان کا اپنا گزارا نہیں ہوتا۔
حکومتیں اور معیشتیں اکٹھی ڈوبتی ابھرتی ہیں
دنیا بھر میں معاشی پالیسیاں ہی حکومتوں کو بناتی یا بگاڑتی ہیں اور اگر یہی صورتحال جاری رہی، جو کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے باعث ظاہر ہے کہ جاری رہے گی، بلکہ مزید خراب ہونے کا بھی قوی امکان موجود ہے، تو معیشت اکیلی نہیں ڈوبے گی۔ اپنے ساتھ بہت سوں کو لے کر ڈوبے گی۔