اس سے قبل سپریم کورٹ اپنی 1989 کی ایک ججمنٹ میں یہ لکھ چکی ہے کہ ایک ہی بنچ میں موجود کچھ جج کچھ دیگر ججز کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔ اس حوالے سے بلوچستان بار کونسل نے انتہائی واضح الفاظ میں سپریم کورٹ کو تنبیہ کی ہے کہ جس راستے پر عدالت چل رہی ہے، اس کا ماضی میں انجام درست نہیں نکلا۔
چیف جسٹس کے لکھے فیصلے پر بلوچستان بار کونسل نے سخت رد عمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے گذشتہ روز سپریم کورٹ کے ایک ہم مرتبہ جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور وزیر اعظم عمران خان کو باہم فریق گرداننا اور ان کو عمران خان کے بارے مقدمات کی شنوائی سے باز رکھنا آئین و قانون و اخلاقیات اور مراتب کے اصولوں کے منافی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے بنچ کی جانب سے بے بنیاد مفروضوں کی بنا پر اپنے معزز ساتھی جج کی دیانت و حلف کی پاسداری اور بلا امتیاز انصاف میں ان کے کردار پر انگشت نمائی کرنا ان کے اپنے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ کوئی ہم پلہ شخص اپنے ہم مرتبہ شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا مجاذ نہیں ہے اور نہ وہ کسی کو پابند کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ صرف ذاتی عناد، پسند و ناپسند کا اظہار اور عدلیہ کے اندر تفریق پیدا کرنا اپنے بازو کو الگ کر کے بھوکے کتوں کے سامنے پھینکنے کے مترادف ہے۔
بلوچستان بار کونسل نے خبردار کیا کہ عدلیہ کو ایک بار پھر 1990 کی دہائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جب ایک بنچ دوسرے بنچ کے خلاف فیصلے دیتا رہا ہے۔ کسی بھی جج کے آئینی اختیارات کو کوئی سلب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ہر ایک اپنے ضمیر و اللہ کے سامنے جوابدہ ہے اس لئے قاضی صاحب پر کوئی قدغن یا ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا از خود مس کنڈکٹ کے زمرے اسی طرح جرم ہے جیسے 3 نومبر 2007 کو ایک آرڈر کے ذریعے ججز کو کام سے روکا گیا تھا۔