وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان محض سیاسی نہیں بلکہ اس میں سنجیدگی دکھائی دے رہی۔ لیکن یہ سوال تو بہرحال موجود ہے کہ اس کو کامیاب کرنے کے لئے کس قسم کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں بھی اپوزیشن کیلئے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا آسان نہیں ہوگا، اس کے لئے انھیں بہت زور لگانا پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کے قریب پہنچ سکی، اسے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی، مگر اس کے باوجود وہ ناکام رہی تھی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے پارلیمانی سسٹم میں کسی بھی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانا ایک مشکل کام ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی سطح پر آج تک ایسے کسی اقدام میں کامیابی نہیں مل سکی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے اعلان کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس کی کامیابی کے لئے اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے ناراض اراکین اسمبلی کو کس حد تک اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان بھی یقینی طور پر اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے پورا نظام حکومت رک جاتا ہے۔
وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں کو قبول نہ کرنے اور پارلیمانی جمہوری روایات کو نہ ماننے کا جو رویہ اختیار کیا، اس نے اپوزیشن کو آج اکھٹے کر دیا ہے۔ جبکہ ان کا اتحادیوں کیساتھ بھی رویہ نامناسب رہا، اس وجہ سے وہ بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ حکومت کی بری حکمرانی، مہنگائی اور بے روزگاری نے اپوزیشن جماعتوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اس کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے قائدین تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ماضی میں حزب اختلاف کے حکومت کے خلاف ایسے اقدامات کامیاب نہیں ہوئے۔