جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ بی جے پی کی جانب سے انڈین وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار بن سکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کو خدشہ ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ اگر اقتدار میں آئے تو اس سے بھارت میں انتہا پسندی میں شدت اور قوم پرستی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہے لیکن یوگی بننے یعنی دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام بدل کر یوگی ادیتیہ ناتھ رکھ لیا اور ستمبر 2014 ء سے گورکھ ناتھ مندر کے ہیڈ پجاری ہیں۔
ادیتیہ ناتھ کی حکومت میں دائیں بازو کی ہندو سیاست کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ اس دوران انہوں نے گائے کے ذبیح کے خلاف اور بین المذاہب شادیوں بالخصوص ہندو خواتین اور مسلمان مردوں کے درمیان شادیوں کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کئے۔
سیاست میں آنے سے قبل انہوں نے ''ہندو یووا واہنی'' نامی ایک تنظیم کی شروعات کی۔ انہوں نے اسے ہندو مذہبی تنظیم قرار دیا تاہم یہ گائے کے تحفظ اور ''گھر واپسی‘‘ کے لئے کام کرتی ہے۔ گھر واپسی سے مراد اسلام، مسیحیت یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مذہب تبدیل کراکے ہندو بنانا ہے۔
اس تنظیم کا ایک اور مقصد مبینہ لو جہاد کی روک تھام بھی ہے۔ ہندو یووا واہنی یہ غلط فہمی پھیلانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئی ہے کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں کو لالچ یا دھوکا دے کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور اس کا اصل مقصد ہندو اکثریتی ملک میں مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنا ہے۔
انڈیا کی سیاسی لحاظ سے سب سے اہم اور سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ 10 فروری کو ہوچکی ہے۔ 403 رکنی ریاستی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ آخری مرحلے کی پولنگ 7مارچ کو ہوگی جبکہ نتائج 10مارچ کو سامنے آئیں گے۔
اس اسمبلی الیکشن میں اترپردیش میں حکمراں بی جے پی کی قسمت داؤ پر ہے جہاں سے تقریباً پندرہ فیصد اراکین پارلیمان بھارت کے ایوان زیریں میں پہنچتے ہیں۔ اس طرح اترپردیش بھارت کے وزیر اعظم کے تعین میں اہم رول ادا کرتاہے۔ بھارت کے اب تک چودہ وزرائے اعظم میں سے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی سمیت نو وزرائے اعظم کا تعلق یو پی سے رہا ہے۔