فیڈرل بورڈ آف ریونیو حقائق کی پردہ پوشی کیوں کر رہا ہے؟

ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو نادہندہ ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹوں کو لازمی طور پر جرمانہ کیا جانا چاہیے تھا اور مطالبہ موجودہ/ بقایا جات کی وصولی میں، یا ایک علیحدہ نوٹ کے ذریعے ظاہر ہونا چاہیے تھا جو مکمل طور پر غائب ہے۔

01:40 PM, 12 Feb, 2024

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

ہر سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) وزارت خزانہ (MoF) کے ریونیو ڈویژن کے طور پر، ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی وصولی سے متعلق اعداد و شمار کا سالانہ جائزہ بعنوان، Year Book [ایئر بک] جاری کرتا ہے۔ اس میں تجزیہ کے ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی کا تعین کرنے کے لیے کامیابیوں، کمزوریوں اور دیگر انکشافات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ مالی سال 2019-20 اور اس کے بعد کی طرح، تازہ ترین ایئر بک 2022-23  [ ریونیو ڈویژن] میں، ٹیکس سال 2022 کے لیے موصول ہونے والے کل انکم ٹیکس گوشواروں اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تحت 30 جون 2023 تک رجسٹرڈ افراد کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ حقائق کی بد ترین پردہ پوشی ہے۔

آخری بار ایسا ڈیٹا [معلومات] باضابطہ طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایئر بک 2018-19 میں جاری کیا گیا تھا، جس میں ٹیکس سال 2018 کے لیے ایئر بک کو حتمی شکل دینے کی تاریخ تک کل 2,666,256 انکم ٹیکس گوشوارے داخل کیے گئے تھے جن میں سے 43,246 کمپنیوں کے تھے۔ تاہم، 'ٹیکس سال 2018 کے لیے تمام ٹیکس دہندگان کی ٹیکس ڈائریکٹری' کے ساتھ ساتھ 'ٹیکس ڈائریکٹری تجزیہ برائے ٹیکس سال 2018' میں ٹیکس سال 2018 کے لیے 14 ستمبر 2020 تک موصول ہونے والے انکم ٹیکس گوشواروں کی کل تعداد 2,852,349 دکھائی گئی۔

ہمارے اور بہت سے لوگوں کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آج تک نئے فائلرز سے وصول کیے گئے گوشواروں کی بنیاد پر انکم ٹیکس میں اضافہ کی رقم کو ظاہر نہیں کیا۔ اس طرح کی حقائق کی پردہ پوشی آئین کے آرٹیکل 19 اے کی صریح خلاف ورزی ہے، جو کہتا ہے؛ 'ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہوگا جو ضابطے اور قانون کی طرف سے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع ہو'۔

پاکستانی شہری کسی خاص ٹیکس دہندہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مانگ رہے، جسے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 216 کے تحت تحفظ حاصل ہے، وہ صرف ہر ٹیکس سال کے لیے تمام انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرانے والوں کی تعداد اور اس کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں۔ وہ ٹیکس دہندگان کے تمام زمروں، یعنی کمپنیوں، افراد کی ایسوسی ایشن (AOPs) اور افراد (تنخواہ دار، غیر تنخواہ دار) کے ساتھ ساتھ کاروبار اور پیشے سے منسلک افراد کی طرف سے ادا کردہ سیکٹر وار ٹیکس کا تجزیہ بھی چاہتے ہیں۔ یہ معلومات ایئر بک 2022 -23 سمیت مسلسل 5 سالوں کی ایئر بکس میں دستیاب نہیں ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ایئر بک 2022-23 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے بقول 'مالی سال 2022-23 کو ایک تاریخی سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا'۔ غیر معمولی کارکردگی کا دعویٰ کرتے ہوئے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 'ملک کی تاریخ میں پہلی بار 7 کھرب روپے کا ہدف پار کرنے کو تاریخی لمحہ قرار دیا ہے'۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انکم ٹیکس کی مجموعی وصولی 3086 ارب روپے میں سے، صرف 10 قسم کے ودہولڈنگ ٹیکسز کا حصہ 1762.5 بلین روپے تھا۔ بقیہ ودہولڈنگ پروویژنز سے 111.75 بلین روپے (کل 1874.2 بلین روپے) حاصل ہوئے۔

ایڈوانس انکم ٹیکس 945.3 بلین روپے ادا کیا گیا اور گوشواروں کے ساتھ 122 ارب روپے حاصل ہوئے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنی کوششوں سے صرف 144 بلین روپے اکٹھے کیے (2.8 بلین روپے کے بقایا جات اور موجودہ ڈیمانڈ میں سے 114.4 بلین روپے)، جو کہ کل انکم ٹیکس وصولی کا صرف 4.66 فیصد ہے۔ کیا اس کے لیے 25000 کے سٹاف کی ضرورت ہے؟

یہ دلیل کہ ان لینڈ ریونیو سروس (IRS) کا عملہ ودہولڈنگ ٹیکس کی نگرانی میں بہت قابل قدر حصہ ڈالتا ہے، بالکل غلط ہے، جیسا کہ درج ذیل حقائق سے ثابت ہے۔

ودہولڈنگ ٹیکس کے نظام کے تحت بڑے شراکت داروں کی تقسیم یہ ہے؛ معاہدے (390.8 بلین روپے)، بینک سود اور سکیورٹیز (320 بلین روپے)، درآمدات (290.3 بلین روپے)، تنخواہیں (264.3 بلین روپے)، بجلی (95 بلین روپے)، ٹیلی فون (87.2 بلین روپے)، ڈیویڈنڈ (85.3 بلین روپے)، غیر منقولہ جائیداد کی خریداری/ منتقلی پر ایڈوانس ٹیکس (84.7 بلین روپے)، برآمدات (73.8 بلین روپے) اور غیر منقولہ جائیدادوں کی فروخت پر ایڈوانس ٹیکس (70.3بلین روپے)۔ حوالہ ٹیبل 8، ریونیو ڈویژن کی ایئر بک 2022-23 کا صفحہ 11۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ متعلقہ سال کے دوران مروجہ 40 سے زائد ودہولڈنگ ٹیکس کی دفعات کے تحت وصولیوں کی کوئی تفصیل درج نہیں کی گئی۔ یہ تمام وصولی ودہولڈنگ نظام کے تحت ہوتی ہے اور اس میں سالانہ اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ ودہولڈنگ ایجنٹس عملے کی ساز باز سے ٹیکس عام لوگوں سے تو وصول کر لیتے ہیں مگر اس کو سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرواتے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا دعویٰ ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی سخت نگرانی کی جاتی ہے جس کے لیے عملے نے بہت کوششیں کیں۔ اگر یہ سچ ہے تو نادہندہ ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹوں کو لازمی طور پر جرمانہ کیا جانا چاہیے تھا اور مطالبہ موجودہ/ بقایا جات کی وصولی میں، یا ایک علیحدہ نوٹ کے ذریعے ظاہر ہونا چاہیے تھا، جو مکمل طور پر غائب ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے ابھی بھی موقع ہے کہ وہ 30 جون 2023 تک ہونے والی اس طرح کی کارروائیوں کی تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس گوشواروں اور سیلز ٹیکس کے رجسٹرڈ افراد کی تعداد، زمرہ کے لحاظ سے بھی ظاہر کرے۔

واجب الادا رقوم (refunds) کی واپسی ریونیو ڈویژن کی ایئر بک 2022-23 میں صرف اصل رقوم کی واپسی تک محدود کی گئی ہے، جو کہ محض 17.3 بلین روپے ہے۔ مالی سال 2021-22 میں یہ رقم 54.2 بلین روپے تھی، اس طرح یہ 68 فیصد کی منفی نمو دکھا رہی ہے۔ یہ طریقہ اختیار کر کے انکم ٹیکس کی وصولی میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔ 500 ارب روپے سے زائد کے ریفنڈز جو انکم ٹیکس میں واجب الادا تھے، ان کو نہ صرف ادا ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کی پردہ پوشی سے بھی کام لیا گیا ہے۔

اگر تمام محصولات کے تحت تمام واجب الاد رقوم (refunds) کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کل وصولی سے منہا کر دیا جاتا تو یہ ہرگز بھی 6.5 ٹریلین روپے سے زیادہ نہ ہوتی۔ یہ حقائق مصنوعی طور پر 7 ٹریلین روپے سے تجاوز کرنے کے دعویٰ کی نفی کرتے ہیں۔

ایئر بک 2022-23 میں فراہم کردہ اعداد و شمار غریب عوام کی معیشت اور زندگی پر اس کے اثرات کا جائزہ لیے بغیر، بالواسطہ ٹیکس پر بہت زیادہ انحصار کی تصدیق کرتے ہیں [یہاں تک کہ متعدد لین دین پر فرضی/ کم سے کم ٹیکس کے نظام کے ذریعے انکم ٹیکس کی آڑ میں بھی بالواسطہ ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے]۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے جس پر اب تک نہ تو آڈیٹر جنرل پاکستان اور نہ ہی میڈیا نے کوئی توجہ دی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر قسم کی ظلم و زیادتی، ریفنڈز کو روکنے اور غیر منصفانہ ودہولڈنگ ٹیکسوں کا سہارا لینے کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ مالی سال 2022-23 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کل وصولی جی ڈی پی کا محض 8.5 فیصد رہی۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو 7400 ارب روپے بھی جمع نہیں کر سکا جو کہ مالی سال 2022-23 کا حقیقی ہدف تھا، اسے بعد میں نظرثانی کر کے 7640 بلین روپے کر دیا گیا تھا۔ منی بجٹ یعنی فنانس (ضمنی) ایکٹ، 2023 کے ذریعے، 170 بلین روپے کے اضافی ٹیکس لگائے گئے تھے۔ سال 2022-23 کی ایئر بک میں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اعتراف کیا ہے کہ 'نظرثانی شدہ ہدف 7200 بلین روپے میں 0.5 فیصد کی معمولی کمی رہی'۔ جبکہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں ہدف 7470 بلین روپے مقرر کیا گیا تھا۔ اس طرح کی حقائق سے چشم پوشی کا تاحال کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ وزارت خزانہ کے حکام جن کے سامنے بجٹ کے تمام اعداد و شمار موجود ہیں، چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی وزارت کے دو جزو کیسے ایک دوسرے کے کام سے لاتعلق ہیں۔ اس صورت حال میں محترمہ نگران وزیر خزانہ و معیشت، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیم نو پر مصر ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ زمینی حقائق سے بے خبر، کسی اور ہی دنیا میں مگن ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مالی سال 2023 میں 7.16 ٹریلین روپے اکٹھے کیے۔ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 4.22 ٹریلین روپے کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کو دستیاب، ٹیکس سے (7.169 ٹریلین روپے) اور نان ٹیکس ریونیو (1.710 ٹریلین روپے) خالص آمدن 4.65 ٹریلین روپے تھی، جبکہ صرف قرض کی خدمت (debt servicing) 5.07 ٹریلین روپے تھی۔ گھریلو 4936 بلین روپے اور غیر ملکی 760 ارب روپے۔ مالی سال 2023 میں تمام صوبوں نے مل کر صرف 815.43 بلین روپے جمع کیے تھے۔ 649.56 بلین روپے ٹیکس اور 165.88 بلین روپے غیر ٹیکس محصولات کے طور پر۔

مالی سال 2022-23 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے انکم ٹیکس کے طور پر صرف 3086 بلین روپے اکٹھے کیے۔ جی ڈی پی میں مشکل سے 4 فیصد کا مایوس کن حصہ۔ یہ جی ڈی پی کا 6 فیصد ہو سکتا تھا اگر امیر غیر حاضر زمینداروں سے زرعی انکم ٹیکس وصول کیا گیا ہوتا، جیسا کہ ڈاکٹر محمد اشفاق، سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے روشنی ڈالی تھی۔ انہوں نے بجا طور پر صوبوں سے امیر جاگیرداروں کی چوری روکنے کے لیے کہا، لیکن ان کی کوششیں ناکام رہیں، کیونکہ انہیں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہٹا دیا گیا۔

اسی طرح سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز اور کسٹم ڈیوٹی میں بے تحاشہ بدعنوانی اور نا اہلی کی وجہ سے مجموعی وصولی اصل اہداف سے کم رہی، 6000 ارب روپے کی اصل صلاحیت کی کیا بات کی جائے۔ مالی سال 2022-23 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سیلز ٹیکس کے تحت اصل ہدف 3076 بلین روپے کے مقابلے میں 2591 بلین روپے جمع کیے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اصل ہدف 402 بلین روپے کے مقابلے میں 370 بلین روپے اور کسٹم ڈیوٹی کے 953 بلین روپے کے مقابل 932 بلین روپے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی اتحادی حکومت نے 10 اپریل 2022 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے 16 ماہ کے دور حکومت میں ملک کو ایک مالیاتی بحران کی طرف دھکیل دیا۔ یہ مالی سال 2023 کے لیے وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ کنسولیڈیٹڈ وفاقی اور صوبائی مالیاتی آپریشنز، 2022-23 ['دی سمری'] سے واضح ہے۔ سب سے چونکا دینے والی حقیقت؛ کل وفاقی اور صوبائی محصولات (ٹیکس اور نان ٹیکس) 9.63 ٹریلین روپے کے مقابلے میں کل اخراجات 16.15 ٹریلین روپے۔ صرف قرض کی خدمت 5.83 ٹریلین روپے تھی، یعنی اس طرح پورے دفاعی اخراجات 1.59 ٹریلین روپے مہنگے ادھار فنڈز کے ذریعے پورے کیے گئے۔ صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس دستیاب خالص محصولات میں 1.18 ٹریلین روپے کی کمی تھی۔ یہ ایک مالیاتی ناکامی سے بڑھ کر تھا، ایک پریشان کن خطرناک سگنل، جو ریاست کی معاشی استحکام اور قومی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے مہنگے قرضوں کے تباہ کن نتائج کے نتیجے میں صرف ایک سال کے دوران قرضوں کی فراہمی میں 45 فیصد اضافہ ہوا۔ سمری کے مطابق، مالی سال 2023 میں، قرض کی خدمت پر کل اخراجات 5831 بلین روپے تھے۔ مالی سال 2022 میں یہ 3182 بلین روپے تھا۔ نتیجتاً، مالیاتی خسارہ، تمام بیماریوں کی ماں، 6.5 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کا 7.7 فیصد (84.658 ٹریلین روپے) تک پہنچ گیا ہے۔

مزیدخبریں