الیکشن 2024 الحمدللہ ہو چکے ہیں۔ مختلف الزامات، سیاسی جماعتوں کے تحفظات، الیکشن نتائج پر خدشات پر مشتمل یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا مگر اس وقت ہر شخص کے ذہن میں بس صرف ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہو گا۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس بشمول تحریک انصاف کے آزاد امیدواران میں سے کسی کے پاس بھی سادہ اکثریت موجود نہیں۔ سندھ اسمبلی میں پی پی پی کو سادہ اکثریت مل گئی ہے مگر قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کیلئے مجموعی نشستوں میں سے 169 نشستیں درکار ہوں گی۔ قومی اسمبلی کی عمومی نشستیں 266 ہیں جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں شامل کر کے کل نشستیں 336 بنتی ہیں جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کیلئے 169 نشستیں درکار ہوں گی۔
ملک کا پورا سیاسی منظرنامہ وفاق اور تین صوبوں میں مخلوط حکومتوں کی ممکنہ تشکیل کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ انتخابی مہم کی تلخیوں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے لئے گنجائش نکالنا ہو گی۔ ایسے شواہد ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے پس منظر میں روابط کا آغاز کر دیا ہے۔ نواز شریف جب ووٹ ڈالنے کے لیے لاہور میں پولنگ سٹیشن پر آئے تھے تو انہوں نے میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ سادہ اکثریت ملنی چاہیے اور مخلوط حکومت کی بات نہ کریں۔ جمعہ کو انہوں نے اپنی تقریر میں آزاد امیدواروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو مل کر حکومت بنانے کی دعوت دی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
آصف علی زرداری لاہور سے اسلام آباد آئے تھے جس کے بعد وہ لاہور چلے گئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور میں موجود ہیں جہاں ان کی محسن نقوی کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ ن کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران آصف زرداری نے شہباز شریف سے شکایتوں کے انبار لگا دیے اور نواز شریف کے انتخابی نتائج مکمل ہونے سے قبل وزیر اعظم کے دعوے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
نمبر گیم کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی کے بغیر ن لیگ حکومت نہیں بنا سکتی اور دوسری جانب تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کسی بھی حال میں ن لیگ سے مل کر حکومت بنانے کو راضی نہیں کیونکہ تحریک انصاف کی سیاست ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف رہی ہے۔ زرداری کئی بار بلاول کو وزیر اعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر ن لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو آصف زرداری کی پہلی شرط یہی ہو گی کہ بلاول کو وزیر اعظم بنایا جائے۔ اگر تحریک انصاف کے آزاد ارکان پیپلز پارٹی سے اتحاد کرتے ہیں تو بھی آصف زرداری بلاول بھٹو کو ہی وزیر اعظم بنانے کی شرط پر راضی ہوں گے۔
ن لیگ اگر ایم کیو ایم اور کچھ آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنا بھی لیتی ہے تو زرداری تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ سکتے ہیں مگر ایسا کرنے سے حکومت انتہائی کمزور ہو گی اور اسے مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ ن لیگ اور مقتدر حلقے کبھی نہیں چاہیں گے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کی مضبوط پوزیشن واضح ہو چکی ہے مگر دوسری جانب وفاق پر نظر ڈالی جائے تو بھی پیپلز پارٹی کی نشستیں ن لیگ اور تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں سے کم ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی سب سے زیادہ مضبوط جماعت ہے کیونکہ وزیر اعظم کا انتخاب بغیر پیپلز پارٹی سے اتحاد کیے ناممکن نظر آ رہا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انتخابات 2024 کے بعد ایک بار پھر زرداری سب پر بھاری نظر آ رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔