’کتبوں کے درمیان‘ گھومتی کہانیاں، اور ہمارے معاشرے کے وہ حقائق جنہیں ہم جھٹلانے میں مگن ہیں

08:35 AM, 12 Jan, 2020

اظہر مشتاق
انسان کے سماجی، معاشی اور معاشرتی وجود کو کھل کر سامنے لانے کے لئے فقط تنقید کافی نہیں۔ معاشرے میں زندہ انسانوں کے ساتھ گزرنے والے المیوں اور ان المیوں کے نتیجے میں بدلتے احساسات و جذبات کو سامنے لانے کے لئے ایک تخلیق کار بننا لازم ہے۔ بدلتے سماجی حالات، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں کے بدلنے سے شاید فنون اور ادبی تخلیقات کا ایک خاص انداز سے ہٹ کر ہونا فطری ہے۔ موجودہ دور میں اگرچہ ادب انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے اس لئے معیاری ادبی تخلیقات یا تو سرمایہ داری کے تقاضے کو پورا نہ کرنے کے باعث چھپائی تک نہیں پہنچ پاتیں اور جو چھپائی کے مرحلے کے بعد قارئین تک پہنچتی ہیں وہ اپنےادبی محاسن پر تنقید کی نذر ہو کر تخلیق کار کو مزید تخلیق کے لئے تیار نہیں کر پاتیں۔ مختصر کہانی یا افسانہ اس لئے نہیں لکھے جاتے کہ ادب کی تخلیق کی جائے اور افسانوں کا تخلیق کار تخلیق کے جوہر دکھاتے ہوئے کہانیوں کی لڑی پروئے رکھے۔ افسانوں کی تخلیق خارج میں موجود مظاہر کی محسوسات کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے سماجی رویوں اور حل طلب مسائل پر سوال اٹھانا ہے اور قاری کو سیاسی یا سماجی طور پر بیدار کرتے ہوئے اسے اُس عمل پر اکسانا ہے کہ اس میں سوال کرنے کی ہمت پیدا ہو سکے۔ افسانہ اس لئے بھی اہم ہے کہ افسانوں میں محض عام فہم اور مختصر پیرائے میں خاص بات کی جا سکتی ہے۔ اردو افسانوں میں ایک مخصوص دور کے بعد سماج سے سوال کرتا ہوا افسانہ مفقود ہوتا ہوا نظر آیا یا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عہد میں لکھنا، چھاپنا اور تحریر کو قارئین تک پہنچانا مشکل عمل نظر آتا ہے۔

سرمایہ دارانہ عہد میں جہاں بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انسان مشینی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور چند بنیادی ضروریات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے صرف زندہ رہنے کی ضروریات کے لئے تگ و دو میں مصروف عمل ہے وہاں کتاب جیسی نعمت کو خریدنا بھلا کیسے ممکن ہے لیکن ابھی بھی عددی لحاظ سے کم ہی سہی مگر ایسے قارئین موجود ہیں جو ادب برائے زندگی پر یقین رکھنے والی تصانیف کے منتظر ہوتے ہیں اور سنجیدہ ادب پڑھنے کے خواہاں بھی ہیں۔



ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا شمار بھی ادب کے سنجیدہ نقادوں میں ہوتا ہے جو تنقید نگاری میں ایک محترم مقام رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق کی تصنیف ’ کتبوں کے درمیان‘ ایک تنقید نگار کا محض افسانہ نگار بننے کا عمل نہیں بلکہ ان مردہ سماجی رویوں کو جھنجھوڑنے کے لئے ایک چیخ ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ بے حس انسانی رویوں کو کتبوں سے تشبیہہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو ایک قبرستان جیسے معاشرتی جمود میں پاتے ہوئے ہر افسانے میں کچھ سنجیدہ سوال اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں۔

ڈاکٹر حمیرا اشفاق اپنی کہانیوں کے بارے میں خود لکھتی ہیں:

’’میں نے بغیر کسی تکنیک کا سہارا لئےاپنے اندر جنم لینے والے سوالوں کوکہانی کی شکل میں ڈھال دیا۔ زندگی اپنی تمام تر مکروہات کے باوجود رشتوں کے رنگوں سے خوبصورت بن جاتی ہے۔ میں نے ان رشتوں میں چھپی ان رمزوں کو ماپنے ی کوشش کی ہے جو کہیں سُونے آنگن میں بیٹھی بھاگ بھری کا مقدر لکھتے ہیں تو کبھی ایڈم کے لئے روشنی کا پیغام بن جاتے ہیں۔ جدید انسان کے مسائل اپنی جگہ جو ہر آسائش کے باوجود تنہائی کے کرب میں مبتلا ہے لیکن کچھ حقیقتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جن سے انکار ناممکن ہے۔ ہماری وہ بنیادی ضرورتیں ہیں جن کے بغیر انسان اپنے تہذیبی خدو خال کے باوجود ذلت کی پاتال میں جا گرتا ہے اور پھر بھوک اور افلاس کا عفریت بے قابو ہو کر ناچنے لگتا ہے۔ میں نے ان حقیقتوں کو بھی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنی کہانیوں میں دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے‘‘۔

وہ کہانی کے پلاٹ کے بارے میں کچھ یوں راقم طراز ہیں:

’’مری روڈ سے اسلام آباد ٹال پلازہ پار کرنے سے ذرا پہلے روزانہ سر پر پانی کا برتن رکھے خواتین ایک قطار بنائے سڑک کے کنارے چل رہی ہوتی ہیں۔ اکیسویں صدی کا افسانہ نگار اگر اس پن ہارن کا افسانہ لکھے تو وہ افسانہ قدامت کا شکار نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد پھیلی جہالتیں دنیا کی ترقیوں سے بابلد ہیں‘‘۔


وہ خود اقرار کرتی ہیں کہ ’ کتبوں کے درمیان‘ میں شامل کہانیاں تمام تر آسائشوں میں زندگی گزارنے والے انسانوں کی دلچسپی کا باعث نہیں کیونکہ ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھ کر اینٹیں ڈھونے والے مزدور کی تھکن کا احساس ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔

ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا پہلا افسانہ ’مسٹر چرچل‘ ہے جس میں وہ ایک رکھ رکھاؤ والے انسان کی اپنے جیسے اور انسانوں کے لئے کی گئی جدوجہد کا احاطہ کر رہی ہیں۔ افسانے کا مرکزی کردار مسٹر چرچل ہیں جو ایک حکومتی آرڈینینس کے خلاف اکیلے احتجاج کرتے ہیں اور بالآخر حکومت کو آرڈینینس کو منسوخ کرنا پڑتا ہے لیکن عین منسوخی کے وقت مسٹر چرچل احتجاج پر بیٹھے ہی وفات پا جاتے ہیں۔ اس افسانے میں مصنفہ نے اکائی سے شروع کی جانے والی جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور قارئین کو یہ باور کروایا ہے کہ ثابت قدمی سے کی جانے والی جدوجہد کبھی بھی بے نتیجہ نہیں رہتی، ہاں مگر جہد کاروں کا پرخلوص ہونا لازمی ہے بھلے اس جدوجہد میں ان کی جان بھی چلی جائے۔

کتاب میں شامل دوسرا افسانہ ’گھگو گھوڑے‘ جاگیردارانہ نظام کی سرمایہ داری میں ڈھلنے کی کہانی ہے جس میں ایک بچہ اپنے باپ کے ہاتھوں سے بنے مٹی کے بنے گھگو گھوڑوں پر چابی سے چلنے والے کھلونے کے لئے ضد کرتا ہے۔ مٹی کاسامان بنانے والا خاندان نئی ایجادات سے پریشان ہے کہ اب ان کا مقابلہ مشینوں سے ہے۔



’گلاب‘ کے عنوان سے لکھی گئی کہانی میں مصنفہ نے ایک کام کرنے والی عورت کے اکلاپے کا حال بیان کیا ہے جو اپنے آپ سے بے خبر سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے نجی، سرکاری اور دہاڑی پر ملازمت کرنے والی معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھتے ہوئے زندگی جینا تقریباً بھول جاتی ہے اور اگر ملازمت نہ بھی کر رہی ہو تو گھرداری کا اکیلا پن اسے کاٹنے کو دوڑتا ہےْ ایسے میں اگر کہیں دوسرے دیس میں اپنی محنت بیچنے والا خاوند واپس آنے کی نوید سنائے تو محنت کرنے والی ایک عورت دوہری محنت کر کے گھر کو سنوارتے ہوئے اپنے خاوند کی رہائش کے لئے موزوں بناتی ہے اور اس کی آمد کو بہار سے کم نہیں سمجھتی۔ گلاب ایک ملازمت پیشہ عورت کی اپنے خاوند کی آمد پر خوشی کے لمحات اور محض عام اشیا سے خاص مواقعوں پر خوشی کشید کرنے کی داستان ہے۔

’مٹی، سونا اور مٹکے‘ میں مصنفہ نے ایک روایتی کہانی کو تیزی سے ترقی کرتے پیداواری ذرائع سے جوڑا ہے۔ ایک طرف انسان کے خونی رشتوں سے اعتبار کے اٹھ جانے اور دوسری طرف تیزی سے ترقی کرتے ہوئے سماج میں طمع، حرص اور لالچ کو موضوع بنایا ہے۔ بے شک مصنوعی کھادوں کی مدد سے حاصل کیے جانے والا اناج کبھی بھی خالص مٹی کا سینہ چاک کرنے والی فصل کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ پہیے کے چلنے سے ترقی کا عمل تیز ضرور ہوتا ہے مگر انسان کی طمع اور لالچ میں اضافہ ترقی کے راست متناسب ہے۔

’روشنی کا سفر‘ کے عنوان سے لکھی گئی مختصر کہانی میں ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے جاگیردارانہ سماج میں عورت پر تعلیم کے لئے بند دروازوں کو موضوع بنایا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار بھی عورت ہے اور امدادی کردار بھی عورت۔ سکولوں کے بند کواڑوں کے پیچھے دھمال ڈالتی وڈیرہ شاہی کی مزاحمت میں ایک حکیمانہ صفت عورت چیلنج کرتے ہوئے ایک گاؤں کی سبھی بچیوں کو جب سکول کا راستہ دکھاتی ہے تو روشنی کی کرن مردہ سماج کے اندھیروں کو للکارتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی نوید لاتی ہے۔

’حصار‘ اور ’جادوگر‘ کے عنوانات سے لکھی گئی کہانیاں حال میں پیش آنے والے سماجی سانحوں کی عکاس ہیں جبکہ ’ کتبوں کے درمیان‘ ایک ایسی کہانی ہے جو عمومی رویوں کی وجہ سے امید اور خواہشات کے مقابر پر لگے کتبوں کی ہے۔ جہاں تعلیم کی خواہش لئے ایک عورت کی خواہش کی قبر ہے، بیٹے کی تلاش میں الیکٹرانک مشینوں سے ٹٹولتے پیٹ کی طرف دیکھتی ایک عورت کی امید کی قبر ہے، عورت کو انسان نہ سمجھنے والے اور بیٹیوں کی پیدائش پر بہو بیٹیوں کو طعنے دینے والے سماج کے انسانوں کی مجموعی بے حسی کی قبر ہے۔ ان کتبوں کے درمیاں غیر روایتی ہوئے روایتی سماج کے عکس کی وجہ سے کیے گئے عمل سے ضمیر کے کچوکے کی قبر ہے اور انہی کتبوں کے درمیامن شاید مصنفہ اپنی ہی قبر کو دیکھ کر پریشان ہیں۔



’بھاگ بھری‘ اس بوڑھی عورت کی خود کلامی ہے جس کی آل اولاد ذاتی ترقی کے لئے شہر میں جاکر بس چکی مگر وہ اب بھی گاؤں کے صحن میں رات کو اسی طرح چارپائیاں ڈال کر خیالوں کی دنیا میں سب کو سلاتی ہے اور صبح اٹھتے ہی اسی معمول سے اپنے دور گئے بیٹے بیٹیوں کو آوازیں دے دے کر جگاتی ہے۔ گاؤں کی اماں خود کلامی کرتی ہوئی ہی دن کاٹتی ہے۔ کہانی سوال کرتی ہے کہ اگر ماں اپنی اولاد کو جانے پر بھی نہیں بھولتی تو اولاد ماں کو کیوں بھول جاتی ہے؟

میں میں برابر ہے ہم شادی شدہ جوڑے کی خواہش اور ضرورت کی کشمکش کی کہانی ہے۔ مصنفہ نےمعاشرے کی اس حقیقت کی پرتیں کھولنے کی کوشش کی ہے جس میں ایک ازدواجی رشتے کو ضرورت اور خواہش کے میزان میں تولا جاتا ہے۔ مرد کی خواہشات کو پورا کیا جاتا ہے جبکہ عورت کی خواہشات کو اسکی زندگی کی ضرورت نہیں سمجھا جاتا، مادی ضروریات کو پورا کرنا ہی فرض پورا کرنا سمجھا جاتا ہے، افسانے کے اختتام میں ایک جملہ سماج کے دوہرے معیار اور عورت کو ایک محض ایک جنس سمجھنے کا اظہار ہے:

’’شادی بھی بہرحال ایک مفید رشتہ ہے۔ دیکھوناں! تم میری خواہش کا خیال رکھتی ہو اور میں تمہاری ہر ضرورت کا۔‘‘


مندرجہ بالا جملہ ایک سماجی سچائی کا عکاس ہے۔ مشرقی معاشروں کا عمومی رویہ یہ ہے کہ عورت کی ضرورت کے خیال کو ہی سماجی اور اخلاقی فریضہ جانا جاتا ہے۔ معاشرے کی اکثریت عورت کی خواہشات کی تکمیل کو اپنا فرض نہ سمجھتے ہوئے خواہش کو جاننے تک کا خیال نہیں کرتی۔ روایات کےاسیرمعاشرے اسی جمود کا شکار ہیں۔

’عشق سمندر‘ نامی کہانی بھی ایک محنت کش عورت کی کتھا ہے جو محنت کے بل بوتے پر اپنے غریب خاندان کی تقدیر بدلتے ہوئے ایک بالادست کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے۔ ’ایڈم اور میں‘ بیرونِ ملک پاکستانی کے اندھے بیٹے کی کہانی ہے جسے ایک مہربان پاکستان لاتی ہے تو پاکستان میں موجود دادی اسے اپنی آنکھیں عنایت کرتے ہوئے راہِ عدم سدھارتی ہے۔ ’ایڈم اور میں‘ میں بھی ملمع کاری اور ظاہری چمک دمک میں رہتے ہوئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے خونی رشتوں سے بے اعتناعی کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خونی رشتے بڑی قربانی سے بھی گریز نہیں کرتے۔

’میرا مقدمہ‘ پاکستان کے سیاسی ، سماجی، انتظامی، حفاظتی اور عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ افسانے کے سب کردار پاکستانی سماج کے کردار ہیں۔ ایسے کردار ہر انسان روزمرہ زندگی میں اسپتالوں، کچہریوں، عدالتوں، تھانوں اور ٹی وی کی سکرین پر دیکھتا ہے۔ وہ کردار جن کی وجہ سے معاشرہ استحصال اور بدعنوانی کی معراج تک پہنچتا ہے اور عام انسان غربت، جہالت، پسماندگی اور ذلالت کے اندھے کنویں میں۔ مختصراً افسانے کا مرکزی خیال وہ مربوط بدعنوان ثقافت ہے جس کی جڑیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں مضبوطی سے سرایت کر چکی ہیں اور اگر کوئی دستور کے عین مطابق اس خون آلود ثقافت کی قدروں کو چھیڑتا ہے یا ایک مزاحمتی کردار بننا چاہتا ہے تو وہ اپنا پہلا مقدمہ جیتنے یا ہارنے سے پہلے زندگی کی بازی ہارتے ہوئے نظام کے آلہ کار صحافی کے لئے خبر بن جاتا ہے۔



’مس للی‘ کے عنوان سے لکھا گیا افسانہ مرد اور عورت کے علاوہ سماج میں پائی جانے والی تیسری جنس کے وجود سے انکار کا رونا ہے۔ قدرت کے فیصلوں کو نظر انداز کیے جانے کے بعد سماج میں رتبے اور حیثیت کو قائم رکھنے اور بیٹیوں کے رشتوں میں رکاوٹ سمجھے جانے پر جب ایک ہی بطن سے پیدا ہونیوالے تیسری جنس کی خصوصیات کے حامل بھائی کو بیرون ملک بھیجتے ہیں تو وہ ’مس للی‘ کی شکل میں ایک مانوس کے ذریعے سامنے آ جاتا ہے۔ اس وقت دانتوں سے کاٹنے پر بھی لہو کی دھار نکلنے سے عاری ہوتی ہے۔ ’مس للی‘ جیسے کردار ہمیں ہر روز چوکوں چوراہوں میں ملتے ہیں، جو اس سماج کا حصہ ہیں مگر سماج انہیں اپنا حصہ ماننے سے ہنوز انکاری ہے۔

’ابن سقراط‘ میں ڈاکٹر حمیرا اشفاق ترقی پسند افکار کی تنقید، ترقی پسندوں کے سوالات، دلائل اور منطقی بحث کو لے کر چلی ہیں۔ اس افسانے کے خیال اور پلاٹ سے وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہیں کہ رجعتی اور فرسودہ سماج میں نئی سوچ اور افکار کو اندرونی مزاحمت کا شکار ہو کر سوالات کے تیز دھار تیروں کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر نئی سوچ فرسودگی اور جہالت کے خاتمے کی نوید ہوتی ہے مگر کیا کیجئے کہ فرسودگی اگر مضبوط ہو تو روشن خیالی کو مثل سقراط زہر کے پیالے کی طرف جانے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن ترقی پسند اور روشن خیال انسان فرسودہ دلائل سے زیر ہو کر ان کی بیعت کے بجائے کھنکتی زنجیروں میں جکڑا سر اٹھائے سوئے دار روانہ ہوتا ہے۔

’راؤنڈ اباؤٹ‘ تخلیق اور مملکت کی جنگ کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ عورت کی کمزوری اور اس پر حق ملکیت انسان کو اس نہج پر لے آتا ہے کہ ایک بیٹی کی ماں کو یہ کہ دیا جاتا ہے ’’تم اس کی خالق تو ہو، مگر مالک نہیں‘‘۔ ’بھورا بیل‘ موجودہ سیاسی نظام پر کڑی تنقید کرتا افسانہ ہے جس میں ایک نوجوان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر الیکشن لڑنے کی کوشش کرتا ہے، نئی سیاسی پارٹی کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن نئی سیاسی پارٹی اسی کے مخالف کو الیکٹیبل سمجھتے ہوئے ٹکٹ سے نوازتی ہے۔ ’بھورا بیل‘ دراصل عوام ہیں جنہیں ذات، برادری اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر تقسیم کر کے انہیں ایک پہیے کے ارد گرد گھومنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح بیل آنکھوں پر پٹی باندھے کوہلو کے گرد گھومتا ہے اور اسے اپنی قوت کا ادراک نہیں ہوتا سی طرح عوام ذات، برداری، قبیلے اور مسلک میں بٹے رہ کر ایک مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار نہیں کر پاتے۔ موجودہ سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں نئے نام کے ساتھ میدان میں آتی ہیں، میرٹ کی بالادستی، عدل و انصاف اور ترقی کا نعرہ لگاتی ہیں لیکن اس نظام کو بدلنے کے دعویدار وہی پرانے راہنما ہوتے ہیں جو نسلوں سے عوام کے معاشی استحصال میں مصروف عمل رہے ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے موجودہ سیاسی نظام کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔



کتاب کا آخری افسانہ ’تھوک‘ ہے۔ ’تھوک‘ میں جاگیردارانہ سماج کے بالادست اور تہی دست طبقے کے درمیان سماجی تفریق کو بیان کیا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف مصلیوں سے میل جول اور رکھ رکھاؤ کو چوہدری اچھا نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف چوہدری مصلیوں کی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس افسانے میں بالا دست طبقے کی ذہنیت کی عکاسی کی گئی ہے اور مزارعین، مزدوروں اور کام کاج کرنے والے لوگوں کی بہو بیٹیوں کی طرف بالا دست طبقے کے مردوں کی جنسی نفسیات کو بیان کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر حمیرا اشفاق کے افسانوں کے کردار جامد نہیں متحرک ہیں۔ افسانوں میں اٹھائے گئے سوالات اس سماج کی مجموعی قدروں پر سوالات ہیں۔ کردار آفاقی ہوں تو سماج سے جڑت پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے، اسی لئے ان کے کردار زمینی ہیں۔ کسی بھی افسانے میں کوئی ایسا مافوقالفطرت کردار نہیں جو اس سماج میں موجود نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ بیک وقت پرانی انسانی قدروں اور نئی تکنیک سے جڑی نظر آتی ہیں۔ وہ ترقی پسند ہیں لیکن انہیں انسانی جذبات، احساسات اور رشتوں کے قتل کی قیمت پر ترقی قبول نہیں۔ وہ بدلتے مادی حالات کی بدولت انسانی رویوں کی تبدیلی پر شکوہ کناں ہیں۔ وہ لندن کی شاہراہوں پر گھومتے ہوئے بھی اپنے افسانوں کے پلاٹ کو ترتیب دیتے ہوئے کرداروں کی تلاش میں رہیں۔ وہ ملتان کے کسی گاؤں، سندھ کے گوٹھ اور اسلام آباد کی صاف ستھری فضا میں بھی افسانہ تلاش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق کو پڑھتے ہوئے قاری اگلے افسانے کی طرف لپکتا ہےاور بالکل مایوس نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ ڈاکٹر حمیرا اشفاق اسی طرح افسانوں کے مجموعے قارئین کی نذر کرتی رہیں گی۔

کتبوں کے درمیان‘ 160 صفحات پر مشتمل ہے جسے سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور  نے شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 500 روپے ہے اور یہ سنگ میل پبلی کیشنز سے منگوائی جا سکتی ہے۔
مزیدخبریں