اس حوالے سے قومی اخبار دی نیوز میں شائع رپورٹ میں سینئیر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا کہ سرکاری ذرائع کے مطابق ان میں سے ایک اجلاس ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے ماتحت 13 دسمبر کو ہوا، دو اجلاس اسسٹنٹ کمشنر مری کے ماتحت 8 نومبر اور 30 نومبر کو ہوئے جبکہ ایک اجلاس مری کے اسٹیشن کمانڈر کے ماتحت 30 نومبر 2021ء کو ہوا تھا۔
پنجاب ہائی ویز ڈیپارٹمنٹ کے میکینکل ونگ کی سنگین غفلت یہ تھی کہ ایس او پیز کے برعکس برف ہٹانے کیلئے 16 مشینیں ایک ہی پوائنٹ (سنی بینک) پر لگا دی گئیں جبکہ پہلے کے اجلاسوں میں فیصلہ ہوا تھا کہ یہ مشینیں مری کے اسٹریٹجک مقامات پر لگائی جائیں گی تاکہ اہم سڑکوں کو کلیئر رکھا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ جس وقت علاقے میں اشد ضرورت تھی تو مکینیکل ونگ کے اہم عہدیدار بھی مری سے غائب تھے، اور یہ لوگ راولپنڈی میں مشینیں چلا رہے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ برف کو کاٹنے والی مشینوں کے ڈرائیورز اُس وقت پہنچے جب برف باری تھم چکی تھی، یہ لوگ برف باری سے قبل یا اس کے دوران نہیں پہنچے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برف باری کے سیزن سے قبل، متعدد درخواستوں کے باوجود ہائی ویز کنسٹرکشن ڈویژن نے سڑکیں مرمت نہیں کیں، یہی وجہ تھی کہ ٹریفک بلاک ہوئی اور ہجوم لگ گیا۔ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی نے بھی اس سلسلے میں شدید بے حسی کا مظاہرہ کیا کیونکہ ادارے نے مری ایسکپریس وے بالخصوص لوئر ٹوپہ اور پترایاٹہ سے برف ہٹانے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے۔
اس سے بھی انخلاء کے مقام پر ٹریفک شدید جام ہو گئی تھی ، ایکسپریس ہائی وے، مال روڈ، جھیکا گلی، کشمیر پوائنٹ، بھوربن روڈ وغیرہ پر 7 جنوری کی برف باری کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
دوسری جانب راولپنڈی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور تمام متعلقہ ایجنسیاں، جو ایسے واقعات کیلئے تیاری کی ذمہ دار ہیں، مکمل طور پر تیار تھیں اور انہوں نے انسانی اور دیگر وسائل لگا دیے تھے کہ منصوبے کے مطابق موسم اور سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد سے نمٹا جا سکے۔
شہر کی حدود میں داخل ہونے والے سیاحوں کی تعداد کی مانیٹرنگ کی جا رہی تھی اور تمام متعلقہ ایجنسیاں گزرتے وقت کے ساتھ اس کا ریکارڈ مرتب کر رہی تھیں۔ تاہم، سرکاری موقف کے مطابق 7 جنوری کو موسم سخت ہوگیا اور یہ برفانی طوفان میں بدل گیا، ایسا اس علاقے میں کبھی نہیں ہوا۔ اس صورتحال کے پیش نظر، ڈپٹی کمشنر نے فوری طور پر مری کو جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کرنے کا حکم دے دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حکام کا اصرار ہے کہ انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ریسکیو اور ریلیف کی کوششیں پوری رات جاری رہیں۔ ان میں گاڑیوں کو نکالنا، سیاحوں کو بچانا اور بھٹکتے ہوئے لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا شامل تھا۔ 8 جنوری کی دوپہر تک سویلین انتظامیہ نے 80 فیصد تک پھنسی گاڑیوں کو نکال دیا تھا۔ موسم کے حوالے سے پیش گوئیوں کے تناظر میں انتظامیہ نے مسلح افواج سے مدد طلب کی تاکہ ریلیف سرگرمیاں جاری رہیں۔