لیکن 2018 میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے تین سال میں قرض لینے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں ($ 40 بلین) ۔ اب ان کے مخالفین سختی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ کا احترام کریں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کریں کیونکہ اس نے پاکستان کی مالی خودمختاری کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حوالے کر دیا ہے۔ خان نے آئی ایم ایف کے ایک سابق اہلکار کو مرکزی بینک کا سربراہ مقرر کیا، اور اب آئی ایم ایف نے سٹیٹ بینک پر پاکستانی حکومت کے کنٹرول کو بھی بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔ بعض ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے۔ کیا عمران خان پاکستان کو معاشی تباہی سے بچا سکتے ہیں یا 2023 کے اگلے الیکشن سے پہلے ان کی اپنی حکومت گر جائے گی؟
کچھ عرصہ پہلے تک، عمران خان ملکی تاریخ کے خوش قسمت ترین وزیر اعظم سمجھے جاتے تھے۔ اپنے بیشتر پیشرو حکمرانوں کے برعکس، انہیں کبھی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپوزیشن کمزور اور منقسم ہو چکی تھی۔ عمران خان نے تین سال تک ہموار پانیوں پر اپنے اقتدار کی کشتی چلانے سے لطف اٹھایا ہے۔ تاہم اب ان کی اپنی سیاسی بقا خطرے میں ہے۔
اصل مصیبت ستمبر میں شروع ہوئی جب ان کی پارٹی فوجی رہائشی علاقوں (کنٹونمنٹ ایریا) میں ہونے والے مقامی حکومتی انتخابات میں زبردست شکست کھا گئی۔ اس شکست نے ظاہر کیا کہ اب انہیں مسلح افواج میں وسیع مقبولیت حاصل نہیں رہی۔
اس کے بعد ، دسمبر میں، افغان سرحد کے ساتھ واقع صوبے خیبر پختونخوا (کے پی) میں ایک اور بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ عمران خان کی پارٹی، تحریک انصاف 2013 سے اس صوبے میں حکومت کر رہی ہے۔ پھر بھی اس الیکشن میں اسے صوبے کے تقریباً تمام اہم شہروں میں شکست ہوئی۔ اس سے عمران خان گھبرا گیا۔ شکست کے پیچھے اصل وجوہات سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے انہوں نے پارٹی کی قومی تنظیم کو تحلیل کر دیا۔ پارٹی عہدوں پر نئی نامزدگیوں سے پارٹی کارکنوں میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے جو پہلے ہی پارٹی لیڈروں کے درمیان جھگڑوں سے مایوس ہو چکے تھے۔
عمران خان کا خیال ہے کہ ان کی جماعت خیبر پختونخوا میں امیدواروں کے ناقص چناؤ کی وجہ سے بلدیاتی انتخاب ہاری۔ لیکن ان کے کچھ قریبی ساتھی ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ افراد بڑھتی ہوئی مہنگائی کو حالیہ شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں زبردست اضافے کے ساتھ 2022 کا برس شروع کیا ہے، ملکی تاریخ میں پٹرول کی قیمت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عام پاکستانیوں کا پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں ناک میں دم ہے۔ عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ”دنیا کے سب سے سستے ممالک“ میں سے ایک ہے یعنی مبینہ طور پر پاکستان میں زندگی گزارنے کی قیمت کم ہے۔ درحقیقت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح کا سامنا ہے۔ پاکستانی روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
2018 میں عمران خان کو ووٹ دینے والوں کی بڑی تعداد اب ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ پچھلے تین سال میں چار وزرائے خزانہ اور چھ مالیاتی سیکرٹری تبدیل کر چکے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ ملک کے معاشی مسائل کے لیے پچھلی حکومتوں کی بدعنوانی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ لیکن یہ عذر ختم ہو گیا ہے۔ ان کی اپنی حکومت کرپشن پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
عمران خان کی خارجہ پالیسی بھی ناکامی سے دوچار ہے۔ انہوں نے سقوط کابل کے فوراً بعد افغان طالبان کو گلے لگا لیا۔ بعد ازاں اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کا خصوصی اجلاس منعقد کر کے طالبان حکومت کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن طالبان اسلام آباد کی بات پر کان دھرنے کے بجائے انتہائی متکبرانہ انداز میں پاکستان کو للکار رہے ہیں۔ طالبان نے نہ صرف پاکستانی فوج کی سرحد پر باڑ لگانے کی کوششوں میں مداخلت کی ہے بلکہ اس نے کچھ جگہوں پر پاکستانی فوج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ پاکستان نے کابل میں نئی حکومت کو پاکستانی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اب پاکستانی فوج اور طالبان سرحدی علاقوں میں آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ عمران خان افغان طالبان کی حمایت کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبان کے حامی عناصر عمران خان کی حمایت نہیں کر رہے۔ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کو حال ہی میں طالبان کی حامی جماعت جمعیت علمائے اسلام (JUI۔ F) نے شکست دی۔ جے یو آئی۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سیاست میں فوج کی مداخلت کے سخت ناقد رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے پچھلے ہفتے مجھے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے انتخابات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہی۔
بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اپنے ادارے کے لئے عقب نشینی کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ عمران خان کے لیے بری خبر ہے۔ اگر آئی ایس آئی غیر جانبدار رہتی ہے تو عمران خان کے لیے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دینا مشکل ہو جائے گا، جہاں انہیں بہت معمولی اکثریت حاصل ہے۔ عمران خان نے پچھلے سال پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے آئی ایس آئی کو استعمال کیا جس پر بہت ہنگامہ ہوا تھا۔
عمران خان کو اپنی پارٹی کے بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز میں بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن کی تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ یہ کیس عمران خان کے لیے ایک ٹائم بم کی حیثیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے 2022 کے برس میں فارن فنڈنگ کیس ممکنہ طور پر عمران خان کے لئے واحد سر درد نہیں ہو گا۔
حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا۔ ترجمہ بشکریہ ہم سب۔