صحافی تنظیم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ برطانوی نظام انصاف سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس کیس میں ہر ممکن حد تک سازش کے تمام اثرات پر روشنی ڈالیں۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ مقدمہ جلاوطنی میں رہنے والے صحافیوں کے خلاف تشدد کے جرائم کے لئے استثنا کے خلاف جنگ میں ایک عالمی مثال قائم کر سکتا ہے۔ اس مقدمے میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد گوہر خان پر ہالینڈ میں مقیم پاکستانی صحافی اور بلاگر احمد وقاص گورایہ کے قتل کی نامعلوم افراد کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا الزام ہے۔
12 فروری 2021 کو جب سے ڈچ پولیس نے احمد وقاص گورایہ کو اس کی زندگی کے لئے سنگین خطرے سے خبردار کیا تھا تب سے وہ روپوش ہے۔ اس انتباہ سے قبل وقاص گورایہ نے خود RSF کو بتا دیا تھا کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب گوہر خان نے لندن سے ایمسٹرڈیم کے لئے ٹرین لی اور روٹرڈیم میں گورایہ کے گھر کی جاسوسی کرنے اور غالباً اسے قتل کرنے کے لئے ایک کار کرائے پر لی۔
جون 2021 میں سکاٹ لینڈ یارڈ نے گوہرخان کو بالآخر گرفتار کیا۔ اس کے بعد ابتدائی سماعت کے لئے 19 جولائی کو اسے لندن میں اولڈ بیلی کی مرکزی فوجداری عدالت میں پیش کیا گیا۔ اب ساؤتھ ویسٹ لندن کنگسٹن کراؤن کورٹ کے سامنے اس مقدمے کی سماعت ہوگی جس میں مزید دو ہفتے لگنے کا امکان ہے، لندن میں RSF کے نمائندے اس مقدمے کی پیروی کریں گے۔
آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل بستاغ نے کہا ہے کہ محمد گوہر خان کے مقدمے کے واضح طور پر تاریخی مضمرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جلاوطن سعودی صحافی جمال خاشقجی کو اپنے ملک کی انٹیلی جنس سروسز کی جانب سے چونکا دینے والے قتل کے بعد یہ پہلی بار ممکن ہے کہ ایک جلاوطن صحافی کے قتل کی سازش کے قیاس کرنے والے کو اپنے اعمال کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ڈینیئل بستاغ نے مزید کہا کہ ہم عدالت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان تمام افراد کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرے جو اس قتل کی کوشش میں ملوث ہو سکتے ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ یہ مقدمہ ایک مثال قائم کرے گا اور ایسے اقدامات پر روشنی ڈالنے میں مدد کرے گا جن کا مقصداختلافی صحافیوں کو خاموش کرانا ہے۔
جنوری 2017 میں جب وقاص گورایہ پاکستان کا دورہ کر رہے تھے تو انہوں نے اپنے سمیت چار دیگر بلاگرز کے اغوا کے لئے فوج سے منسلک ایک سرکاری ادارے کو مورد الزام ٹھہرایا تھا، جب حراست کے دوران اسے بلاگنگ بند کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں کئی ہفتوں تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
یاد رہے کہ RSF کے 2021 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے۔