لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اعتماد کے ووٹ کی کاپی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اعتماد کا ووٹ لے کر سیاسی بحران ختم کردیا ہے۔ وزیراعلی کو 186 ممبران نے اعتماد کا ووٹ دیا۔ عدالتی حکم پر سرکاری وکیل نے اسپیکر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا۔
پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ نے کہا کہ گورنر کا پہلا حکم تھا اعتماد کا ووٹ لیں وہ پورا کرلیا ہے۔ گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیر اعلی کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اگر گورنرپنجاب کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوا تو اعتماد کا ووٹ بھی کالعدم ہوجائے گا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کےلیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلٰی نے 12 جنوری کو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔
’وزیر اعلی پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 137 کے سب سیشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔‘
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے وکیل منصور اعوان نے گورنر پنجاب کی جانب سے سٹیمنٹ عدالت میں دی۔
گورنر کے وکیل نے کہا کہ گورنر بلیغ الرحمان نے وزیراعلٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر اعتماد کے ووٹ سے مطمئین ہیں۔ وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کے ریکارڈ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دینا چاہیے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن ہی واپس ہو گیا تو ساری بات ہی ختم ہوگئی۔ ’آپ نے اپنی اسمبلی کے اندر یہ معاملہ حل کرلیا ہے جو اچھی چیز ہے۔‘
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ مستقبل میں گورنر کے ایسے اقدامات کو روکنے اور عدم اعتماد کے لئے کتنے دن کا وقت ہونا چاہیے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کم از کم چودہ روز ہونے چاہئیں۔ اس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہاں گورنر نے پرویز الٰہی کو صرف دو روز دیے۔ جو مناسب وقت نہ تھا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر پابند ہیں کہ کم از کم 7 دن کا نوٹس دیں۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں عدالت نے وقت کا تعین نہیں کیا تھا۔
گورنر پنجاب کے وکیل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کو آئین اجازت دیتا ہے وہ اجلاس بلائیں۔پرویز الٰہی گورنر کی ایڈوائس پر عمل نہیں کر رہے۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر خان نے کہا کہ گورنر وقت اور تاریخ کا تعین نہیں کر سکتا۔ یہ اختیار صرف سپیکر اسمبلی کا ہے۔اگر سپیکر گورنر کی ایڈوائس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اجلاس طویل عرصے کے لئے ملتوی کر دے تو معاملہ عدالت میں جائے گا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے تاریخ مقرر نہ کرنے پر سپیکر تاریخ مقرر کرے گا جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا آئین سے بالاتر اختیارات گورنر استعمال نہیں کر سکتے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر کے اختیارات میں ہے کہ وہ تاریخ دے سکیں، اس پر بیرسٹر علی ظفر اعوان کا کہنا تھا کہ گورنر نے عدم اعتماد کے لئے پرویز الٰہی کو مناسب وقت نہ دیا۔گورنر کا وقت اور تاریخ کا تعین کرنا غیر قانونی ہوگا۔گورنر اس طرح عیر قانونی طریقے سے وزیراعلیٰ کو بتا نہیں سکتے تھے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے تو کس طرح طے کی جائے گا کہ گورنر کی وجوہات قابل اطمینان ہیں۔کیا اسمبلی کے ہر سیشن پر گورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے۔اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کیا گورنر اگلے ہفتے پھر یہی عمل دہرا سکتا ہے۔
بعدازاں گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفیکیشن واپس لینے اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی درخواست نمٹا دی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا تھا۔پرویز الٰہی کو ہٹانے کے نوٹیفیکیشن کو معطل کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ نے 12 جنوری کو آئین کے آرٹیکل 137 کے سب سیشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کیا، اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے۔گورنر کے وکیل منصور اعوان نے گورنر کی جانب سے بیان عدالت میں دیا جسے عدالت نے رکارڈ کا حصہ بنایا۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا بیان دیا۔