نواز شریف مقبول ترین لیڈر بن گئے: گیلپ سروے

سروے کے مطابق نواز شریف کی مقبولیت کا گراف اوپر جبکہ جیل میں جانے کے بعد سے عمران خان کا گراف نیچے جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر عوام کا موُڈ بتاتا ہے کہ اگر آج الیکشن ہوتے ہیں تو پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

02:08 PM, 12 Jan, 2024

نیا دور

ایک نئے سروے کے مطابق نواز شریف پنجاب میں مقبول ترین لیڈر بن گئے۔ گیلپ سروے کے مطابق پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت کا گراف عمران خان سے بڑھ گیا۔

عام انتخابات 2024 سے ایک ماہ قبل گیلپ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ’پولیٹیکل ویدر رپورٹ‘ کے مطابق مسلم لیگ ن خاص طور پر پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی جگہ حاصل کر رہی ہے اور صوبے میں 60 فیصد مقبولیت نواز شریف کی ہے جبکہ 53 فیصد مقبولیت کے ساتھ عمران خان دوسرے نمبر پر ہیں۔

سروے کے مطابق سراج الحق پنجاب میں تیسرے مقبول ترین رہنما، بلاول بھٹو چوتھے اور سعد رضوی کا پانچواں نمبر ہے۔ قومی سطح پر نواز شریف، فضل الرحمان اور خالد مقبول کے علاوہ سروے میں شامل تمام رہنما مقبولیت کھو چکے ہیں۔ نواز شریف کی مقبولیت کا گراف اوپر جبکہ جیل میں جانے کے بعد سے عمران خان کا گراف نیچے جا رہا ہے۔

سروے کے شرکاء سے ان کی پسندیدہ شخصیات کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا۔ پہلے جون اور پھر گزشتہ برس دسمبر میں کیے گئے سروے کے دوران سیاسی موڈ کی تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔

گیلپ سروے کے مطابق قومی سطح پر جون 2023 میں نواز شریف کی مقبولیت 36 فیصد سے بڑھ کر دسمبر 2023 میں 52 فیصد ہو گئی جبکہ اسی عرصے کے دوران عمران خان کی مقبولیت 60 فیصد سے کم ہو کر 57 فیصد ہوگئی ہے۔

گیلپ پولیٹیکل ویدر رپورٹ 2024 کے مطابق پنجاب میں انتخابات سے ایک ماہ قبل انتخابی مقابلہ مسابقتی لگتا ہے اور موجودہ سیاسی رجحان 2018 کے عام انتخابات سے قریب تر ہے۔ جس میں پی ٹی آئی شمالی پنجاب میں مسلم لیگ ن کے مقابلے میں معقول مارجن سے برتری رکھتی ہے لیکن مغربی اور وسطی پنجاب میں اسے مقابلے کا سامنا ہے۔

دسمبر 2023 میں سروے کیے گئے ووٹرز میں سے 34 اور 32 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ بالترتیب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کو ووٹ دیں گے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان فرق 2 فیصد ہے جو اس سروے کے غلطی کے مارجن کے اندر ہونے کے باعث اور شماریاتی اعتبار سے اہمیت کا حامل نہیں۔

گیلپ سروے کے مطابق مقبولیت میں تیسرے نمبر پر 36 فیصد کے ساتھ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہیں۔ پنجاب میں مقبولیت کے لحاظ بلاول بھٹو 34 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے سعد رضوی 31 فیصد مقبولیت کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان 27 فیصد کے ساتھ پنجاب میں مقبولیت کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہیں۔ ساتویں نمبر پر  21 فیصد کے ساتھ جہانگیر ترین کا نام آتا ہے۔

دوسری جانب ملک میں سیاسی جماعتوں کے حوالے سے گیلپ سروے میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی مقبولیت میں فرق کم رہ گیا ہے۔

نواز شریف کی واپسی نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالا۔ صوبے میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کے درمیان بڑا فرق اب معمولی سا رہ گیا، پلڑا ن لیگ کی طرف جانے لگا۔

گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق مارچ 2023 میں پنجاب میں پی ٹی آئی کی پسندیدگی 45 فیصد اور مسلم لیگ ن کی 24 فیصد تھی۔دسمبر 2023 میں پی ٹی آئی کی پسندیدگی 34 فیصد اور مسلم لیگ ن کی 32 فیصد ہوگئی۔ دونوں میں 2 فیصد کا فرق رہ گیا۔

قومی سطح پر تمام رہنماؤں کی مقبولیت کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو ماسوائے نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور خالد مقبول صدیقی، سروے میں شامل تقریباً تمام رہنما مقبولیت کھو چکے ہیں۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ عمران کی ریٹنگ میں تین فیصد کمی ہوئی۔ اسی طرح سعد رضوی بھی 7 ماہ کے عرصے میں 10 فیصد (38 فیصد سے 28 فیصد) نیچے گئے۔ بلاول بھٹو کی مقبولیت میں 36 فیصد سے 35 فیصد تک ایک فیصد کمی آئی۔

جہانگیر ترین کی ریٹنگ میں تین فیصد کمی ہوئی۔ مجموعی طور پر عوام کا موُڈ بتاتا ہے کہ اگر آج الیکشن ہوتے ہیں تو پنجاب میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

دونوں جماعتوں کے درمیان فرق صرف دو فیصد ہے جو اس سروے کے غلطی کے مارجن کے اندر ہے اور اس وجہ سے اعدادوشمار کے لحاظ سے یہ فرق غیر معمولی ہے۔ تاہم یہ کم ہونے والا فرق دونوں جماعتوں کی نشستیں حاصل کرنے کی صلاحیتوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

2018 کے انتخابات میں دونوں جماعتوں کی پوزیشن یکساں رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کو 36 فیصد اور مسلم لیگ ن کو 35 فیصد ووٹ ملے تھے اور صرف دو نشستوں کا فرق تھا۔ پی ٹی آئی نے 63 اور نون لیگ نے 61 نشستیں حاصل کی تھیں۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی مقبولیت 2024 میں بڑھ کر 45 فیصد ہو گئی ہے جو کہ 2018 میں صرف 37 فیصد تھی۔ جے یو آئی ف کی مقبولیت کی شرح 15 فیصد ہے۔ ن لیگ 9؍ فیصد جبکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کی 7؍ فیصد ہے۔

جنوبی خیبر پختونخوا (جے یو آئی ایف کا گڑھ) اور ہزارہ ریجن (نون لیگ کا گڑھ) میں جے یو آئی ایف اور نون لیگ کے درمیان اتحاد ہوا تو پی ٹی آئی کو پریشانی لاحق ہو سکتی ہے۔ ملاکنڈ میں بھی ایسا ہی ہونے کی توقع ہے جہاں اے این پی اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ہے۔

مزیدخبریں