'ویڈیو اصل ثابت ہونے پر امکان یہی ہیں کہ نواز شریف کے خلاف دیا جانے والا فیصلہ معطل ہو جائے گا'

12:43 PM, 12 Jul, 2019

نیا دور
اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری ویڈیو اور الزامات پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کے لیے وزارت قانون کو خط لکھ دیا۔

 اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کو اپنی صفائی میں ایک خط لکھا جو انہوں نے ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے حوالے کیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خط کے ساتھ ایک بیان حلفی اور اس حوالے سے جاری کی گئی اپنی تردیدی پریس ریلیز کو بھی منسلک کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ جج ارشد ملک سے ناصر بٹ کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے لوگوں سے ملاقات کے حوالے سے پوچھا گیا تھا لیکن وہ قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کو اپنے جواب سے مطمئن نہیں کرسکے۔

لیکن سوال یہ اٹھ رہے ہیں کہ متنازعہ ہو جانے والے جج کے زیر سماعت مقدمات کا کیا ہوگا؟ اور جس مقدمے کی وجہ سے متنازعہ ہوئے اس کیس کے فیصلے کی قانونی حیثیت کیا رہ گئی ہے؟

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ ’کوئی بھی سزا معطل نہیں ہو گی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ جج ارشد ملک کے کیس کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔‘

تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہتر ہوتا کہ متعلقہ فریق اس ویڈیو کو عام کرنے کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر شدہ اپیل کے ساتھ پیش کرتے تاکہ یہ ویڈیو قانونی طور پر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن جاتی۔ جب تک ویڈیو ایپلٹ کورٹ کی فائل پر نہیں آتی تب تک عدالت اس پر کچھ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ثابت ہونے پر امکان یہی ہیں کہ نواز شریف کے خلاف دیا جانے والا فیصلہ معطل ہو جائے گا کیونکہ قانونی زبان میں پہلے فیصلے کو مِس ٹرائل کہا جائےگا۔‘

معاملے پر مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ معاملہ کسی جج کو معطل کئے جانے کا نہیں۔ اس فیصلے کو معطل کرنے کا ہے جو اس جج نے دیا، معاملہ کسی جج کو عہدے سے نکالنے کا بھی نہیں، اس فیصلے کو عدالتی ریکارڈ سے نکالنے کا ہے جو اس جج نے دباؤ میں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جج کو فارغ کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ معزز اعلیٰ عدلیہ نے حقائق کو تسلیم کر لیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو وہ فیصلہ کیسے برقرا رکھا جا رہا ہے جو اس جج نے دیا ؟ اگر فیصلہ دینے والے جج کو سزا سنا دی ہے تو اس بے گناہ نواز شریف کو کیوں رہائی نہیں دی جا رہی جس کو اسی جج نے سزا دی؟

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ اگر ایک جج Misconduct کا مرتکب پایا گیا ہے اور اسے اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے تو اس Misconduct کا نشانہ بننے والے کو سزا کیسے دی جاسکتی ہے؟ نواز شریف تین بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے پاکستان کے پہلے اور واحد شخص ہیں۔ اور وہ شخص آج بےگناہ ثابت ہو جانے کے باوجود جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا صرف جج کو فارغ کر دینا کافی ہے؟ ہرگز نہیں۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ اعلی عدلیہ سے مودبانہ گزارش کرتی ہوں کہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور نواز شریف کو انصاف فراہم کرتے ہوئے کسی تاخیر کو بغیر رہا کیا جائے۔ اب یہ معاملہ نواز شریف تک محدود نہیں رہا۔ میں انصاف کے لیے اعلی عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہوں۔ منتظر رہوں گی۔

واضح رہےکہ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوازشریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا۔

 
مزیدخبریں