جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں مزید کہا کہ 16 سال پہلے ملتان کی ایک ویڈیو مجھے دکھائی گئی، ویڈیو کے بعد کہا گیا وارن کرتے ہیں تعاون کریں، ویڈیو دکھانے کے بعد دھمکی دی گئی اور وہاں سے سلسلہ شروع ہوا، سماعت کے دوران ان کی ٹون دھمکی آمیز ہوگئی، مجھے رائے ونڈ بھی لے جایا گیا اور نواز شریف سے ملاقات کرائی گئی، نواز شریف نے کہا جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر تعاون کریں، نواز شریف نے کہا ہم آپ کو مالا مال کر دیں گے۔
بیان حلفی میں کہا گیا کہ ناصربٹ نے دھمکی دی کہ نوازشریف کے مجھ پر بہت احسان ہیں، نوازشریف نے مجھے قتل کے 5 مقدمات میں بچایا، نوازشریف کے لیے کسی بھی حد تک جاؤں گا۔
سابق وزیر اعظم سے مبینہ ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ ناصرجنجوعہ نے ان مرضی کے بغیر ان کی آڈیو ریکارڈ کرکے نوازشریف کو سنائی، ناصربٹ نے کہا نوازشریف اس آڈیو سے مطمئن نہیں، ناصربٹ نے کہا آپ (ارشد ملک) کو نوازشریف سے ملنا ہوگا، 6 اپریل 2019 کو جاتی عمرہ میں نوازشریف سے ملاقات ہوئی، ناصربٹ نے نوازشریف کی موجودگی میں کہا فیصلہ دباؤ میں دیا۔
ارشد ملک کے مطابق انہوں نے نوازشریف کے منہ پر کہا میں نے میرٹ پر فیصلہ دیا، نوازشریف نے ان کی بات پر ناگواری کا اظہار کیا، ان کے بیان کے بعد نوازشریف سے ملاقات ختم ہوگئی، ناصربٹ نے کہا فیصلہ سنا توچکے اب نوازشریف کیلئے کچھ کرنا ہوگا، ناصربٹ نے بلیک میل کرکے آڈیو ریکارڈ کرنے کی کوشش کی، ناصربٹ نے کہا نوازشریف کے سامنے میری مرضی کا بیان نہیں دیا اب ایک اور کام کرو، نوازشریف کی اپیل کا جائزہ لو اور اپنی تجاویز دو۔
جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔
بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کو اپنی صفائی میں ایک خط لکھا جو انہوں نے ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے حوالے کیا۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خط کے ساتھ ایک بیان حلفی اور اس حوالے سے جاری کی گئی اپنی تردیدی پریس ریلیز کو بھی منسلک کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ جج ارشد ملک سے ناصر بٹ کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے لوگوں سے ملاقات کے حوالے سے پوچھا گیا تھا لیکن وہ قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کو اپنے جواب سے مطمئن نہیں کرسکے۔
قانونی ماہرین کا کہتے ہیں؟
سوال یہ اٹھ رہے ہیں کہ متنازعہ ہو جانے والے جج کے زیر سماعت مقدمات کا کیا ہوگا؟ اور جس مقدمے کی وجہ سے متنازعہ ہوئے اس کیس کے فیصلے کی قانونی حیثیت کیا رہ گئی ہے؟
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ ’کوئی بھی سزا معطل نہیں ہو گی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ جج ارشد ملک کے کیس کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔‘
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہتر ہوتا کہ متعلقہ فریق اس ویڈیو کو عام کرنے کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر شدہ اپیل کے ساتھ پیش کرتے تاکہ یہ ویڈیو قانونی طور پر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن جاتی۔
مریم نواز کا موقف
معاملے پر مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ معاملہ کسی جج کو معطل کئے جانے کا نہیں۔ اس فیصلے کو معطل کرنے کا ہے جو اس جج نے دیا، معاملہ کسی جج کو عہدے سے نکالنے کا بھی نہیں، اس فیصلے کو عدالتی ریکارڈ سے نکالنے کا ہے جو اس جج نے دباؤ میں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جج کو فارغ کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ معزز اعلیٰ عدلیہ نے حقائق کو تسلیم کر لیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو وہ فیصلہ کیسے برقرا رکھا جا رہا ہے جو اس جج نے دیا ؟ اگر فیصلہ دینے والے جج کو سزا سنا دی ہے تو اس بے گناہ نواز شریف کو کیوں رہائی نہیں دی جا رہی جس کو اسی جج نے سزا دی؟
مریم نواز نے مزید کہا کہ اعلی عدلیہ سے مودبانہ گزارش کرتی ہوں کہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور نواز شریف کو انصاف فراہم کرتے ہوئے کسی تاخیر کو بغیر رہا کیا جائے۔ اب یہ معاملہ نواز شریف تک محدود نہیں رہا۔ میں انصاف کے لیے اعلی عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہوں۔ منتظر رہوں گی۔
واضح رہےکہ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوازشریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔
اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا۔