امریکی صدر صاف کہہ چکے ہیں امریکی افغانستان میں قوم سازی کے لیئے نہیں آئے تھے۔ یعنی یہ کہ جب وہ یہاں سے نکل رہے ہیں تو پیچھے کیا کچھ کس حالت میں رہ جائے گا انکی جانے بلا وہ تو اس وقت صرف اپنا دیکھ رہے ہیں۔ اب آئیے خطے کی جانب۔ افغانستان جل رہا ہے اور سب بتانے والے یہی بتاتے ہیں کہ سب کچھ خاکستر ہونے کا خدشہ سلگ رہا ہے قریب ہے کہ قد آور شعلوں کی لپٹیں دور سے ہی دکھائی دینے لگیں۔ ایسے میں افغانستان کے ہمسائے پریشان ہیں۔ یا کم از کم چوکنے ضرور ہو چکے ہیں۔ یہی تناظر ہے کہ جس میں آئے روز پاکستان کی جانب سے کوئی نا کوئی بیان سامنے آجاتا ہے اور بھارت روس اور چین کی جانب سے بھی کوئی نا کوئی ایکٹویٹی سامنے آتی ہے۔ ابھی تازہ ترین بیان میں پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ فواد چوہدری نے کہا کہ افغانستان میں بدلتی صورتحال پر گہری نظر ہے، کوشش ہے کابل میں ایک پرامن اور سب کی رائے پر مبنی نظام حکومت کے ذریعے آگے بڑھا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو بھی پاکستان کے اندر اس کے اثرات نہیں آنے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری افغان پالیسی پاکستان کے مفاد پر ہے، وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ امن میں حصہ دار ہوں گے لیکن جنگ میں نہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہورہی، امید ہے کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، سیاسی پارلیمانی قیادت عدم مداخلت کے اصول پر متفق ہے۔ دوسری جانب اس خبر کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت نے اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ افغان حکومت کو فراہم کردی جس کی مدد سے افغان حکومت طالبان کے خلاف کارروائیاں کرسکے گی۔
اسلحہ کی اس کھیپ کو لے کر بھارتی سی 17 طیارے اتر پردیش، جے پور اور چندی گڑھ سے روانہ ہوئے جنہوں نے کابل اور قندھار ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد اسلحہ افغان حکومت کے حوالے کیا۔
گئے اسلحہ میں 40 ٹن سے زائد گولیاں، بھاری گولہ بارود بھی شامل ہے۔ اسلحہ پہنچانے کی تصاویر بھی منظر عام پر آگئیں۔ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی جہاز کابل اور قندھار میں افغان حکومت کو اسلحہ دے کر واپسی پر اپنے اسٹاف کو لے کر جا رہے ہیں۔
اس ضمن میں تیسری خبر یہ ہے کہ افغان صدر نے طالبان قیادت سے سوال کیا کہ ملک سے غیر ملکی افواج کے چلے جانے کے بعد اب کس سے اور کیوں جنگ کی جا رہی ہے؟ ہم سب کو شام، عراق اور لبنان کا حشر یاد رکھنا چاہیئے اور اس سے سبق سیکھنا چاہیئے۔ اس خبر کی کچھ اور بھی تفصیلات ہیں تاہم یہاں اتنا بھی ذکر مناسب ہے۔
ان خبروں کو ملا کر جو تصویر واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ پاکستان میں افغانستان کو لے کر غیر یقینی ہے اور یہی پریشانی کا باعث ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ امریکا کے جلد بازی میں افغان انخلا سے طالبان پر پاکستان کا اثرو رسوخ کم ہوا ہے۔ دوسری اور تیسری خبر صاف بتاتی ہے کہ افغانستان میں خطرناک اور انسانیت سوز خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے جس میں بھارت جیسی دیگر طاقتیں بھی اپنے مفادات کے لیئے آتش و خوں کے نسخے افغانستان بھیج رہے ہیں۔ تاہم اس میں ایک بات واضح رہے کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی جو کہ نوشتہ دیوار نظر آتا ہے تو فواد چوہدری کے دعوے ہوا میں اڑ جائیں گے۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکستان اور افغانستان جس کے بارڈر کے دونوں جانب ایک زبان بولنے والے، ایک نسل، مذہب اور علاقائی شناخت کی سیاست پر یقین رکھنے والے افراد بستے ہیں۔ ان کے رشتہ دار کاروبار آمد و رفت، تعلیم و صحت کے سلسلے بارڈر کے آر پار جڑے ہوئے ہیں۔ ایک جانب دھاگے کو آگ دکھائی جائے گی تو دوسری جانب پاوں کے بیچوں بیچ بم پھٹیں گے۔