مندرجہ بالا الفاظ کیمیائی محلول کامرکب ہے نہ ہی کسی افریقی ملک کا نام، صرف ایک لفظ کو چار حروف میں تقسیم کیا ہے۔ لسانیاتی اور سماجی اعتبار سے ایک تجربہ کرنے کی نیت کی ہے۔ امید کرتا ہوں قارئین مثبت رائے اخذ فرمائیں گے۔
متذکرہ حروف کو ایک لڑی میں پرویا جائے تو یہ " تحمل" کہلاتا ہے۔ اس لفظ کو صرف اردو کے بنیادی حروف کا مجموعہ نہ تصور کیا جائے، یہ ایک مزاج، ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ دانش مندی، بردباری، صبر و استقامت کا ہم نوالہ ہم پیالہ ہے۔ راقم الحروف نے مندرجہ بالا عنوان کے حروف ِ مخفف کا مشابہ نسخہ تیار کیا ہے۔ ت/ تسلیم، ح/حِلم، م/مومن اور ل /لجاجَت۔ تسلیم سے مراد اپنی اغلاط و عیوب کو صدق ِ دل سے تسلیم کرنا ہے۔ حِلم، نرم گوشہ کا نام ہے، کسی سے محبت اور خلوص سے پیش آنا تحمل کا مرکب۔مومن، ملائکہ کی صفات کا مخزن ہے۔ اورلجاجَت، عاجزی کا ارمغاں ہے۔
ادنیٰ سی فکری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے خاکسار نے یہ نسخہ تیار کیا ہے۔ قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس عمل کی کیا وجہ ہے؟ تحمل کے لغوی معنی تو بہت سی لغات میں میسر ہیں، حرفی تحقیق کو مرتب کر کے کون سا علمی تمغہ حاصل ہوا؟ بات یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال بہت سی دینی کتب میں ہو ا ہے۔ اس کے مترادفات قرآن ِ مجید فرقان ِ حمید میں بھی پڑھے جاتے ہیں۔ یعنی اس مقدس کلام میں اس اصطلاح کی اہمیت ہے۔ دوسری جانب دنیاوی اعتبار سے مہذب معاشرے تحمل مزاجی کو بھی فوقیت دیتے ہیں۔ آداب میں تحمل مزاجی اولین صفات میں شمار ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایک بات نہیں سمجھ آرہی، ہم کس ڈھنگ سے زندگی گزار رہے ہیں؟
ہمارے سماج میں سوچ بچار کا رنگ ڈھنگ معدوم ہو رہا ہے۔ یہ کوئی کتابی بات نہیں ہے، اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں، کتنی تہذیب آپ کو نظر آرہی ہے؟ کسی چوک چوراہے میں چند لمحات گزاریں، کس حد تک نظم و ضبط آپ کو ملے گا؟ بلکہ اب تو مہارت سے اشارہ توڑنا ہی فنکار ڈرائیور کی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ چند روز قبل ایک مزدور بچے پر مکینک کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ آٹھ سالہ بچے کی چیخ پکار نے دل تو دہلایا لیکن سماج کا اصل چہرہ بھی حسبِ معمول دکھایا۔ عدم برداشت، تحمل مزاجی گویا سب درگور۔ کیا تو یہ بھی جا سکتا تھا کہ اگر بچہ کام پر تاخیر سے آیا ہے تو اس کے والدین سے بات کی جائے یا مزاج نہ ملنے کی صورت میں کام سے فارغ کر دیا جائے۔ ویسے تو بچوں سے مزدوری کروانا ناقابل معافی جرم ہے، اگر کسی مجبوری میں ایسا عمل ہو رہا ہے تو غصہ کو قابو میں رکھتے ہوئے صبر و تحمل سے معاملہ سلجھایا جا سکتا تھا۔ لیکن کیا کریں، پرورش کے آثار تو نمودار ہوں گے۔
آئے روز گلی محلوں میں ہونے والی لڑائیاں بھی تحمل کی متضاد ہیں۔ چند روز قبل لاہور میں ایک نوے سالہ بزرگ نے بچوں پر فائرنگ کی۔ وجوہات جاننے پر معلوم ہوا کہ بچے ٹیوشن سے گھر آ رہے تھے، جس گلی سے بچوں کا گزر ہو رہا تھا، وہاں بچے اپنی مستی میں شور کرتے گزر رہے تھے۔ اسی اثنا میں بزرگ نے طیش میں آکر فائرنگ کی۔ ایک پھول دنیا سے رخصت ہوا تو دو زخمی بھی ہوئے۔ اس عمل کا بزرگ کو کیا فائدہ ہوا۔ چند لمحوں کے غصے نے پھانسی کا پھندا مقدر بنا دیا۔
ہمارے ایوان، جہاں ریاست کے اہم امور موضوع ِ بحث بنتے ہیں۔ قوانین منظور ہوتے ہیں۔لیکن جب بات کسی پارٹی یا جماعت کے سرکردہ لیڈر پر آجائے تو ملکی مفاد کا جنازہ کیوں پڑھایا جاتا ہے؟ ایوان ِ زیریں میں بجٹ تقریر پر ہر سال ہم تماشا دیکھتے ہیں، کوئی سال ایسا نہیں جب مدلل گفتگو کی جاتی ہو۔ بظاہر عوامی خدمت کا نعرہ لیکن اندر سے ذاتی عناد کا بھارا۔ تحمل مزاجی میں خود پسندی اور مفاد پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہماری سیاسی تقاریر ان کا منبع ہوتی ہیں۔ چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اوروفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ایوان میں ہونے والی تقاریر نے اقتدار کی چاہت کا عمدہ چہرہ دکھایا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ایک سیاست دان چڑھتے سورج کی پوجا کے مصداق شہرت کی بلندیوں کو چھوتی جماعت کا مکھوٹا پہن کر کرتا من مرضی ہی ہے، ظاہری طور پر ریاست کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ملکی ترقی پر بہت سے مباحثے منعقد ہوتے ہیں، تقاریر میں کہا جاتا ہے کہ بدعنوانیت کا خاتمہ ہی ترقی کا زینہ ہے،لیکن عمل ندارد۔ اس صورتِ حال میں سماج سے منسوب تمام عناصر کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر تحمل مزاجی کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ جب اساتذہ اپنے شاگردوں کو،بزرگ اپنے نوجوانوں کو اور والدین اپنے بچوں کو صبر و تحمل کی عملی تصویر نہیں دکھائیں گے تو کیسے معاشرے کی اصلاح ہوگی۔ کالم کے ابتدائی حصہ میں چار اجزاء صرف عاجزی کو فروغ نہیں دے رہے بلکہ اس میں موجود دانائی، شعوری وسعت، تخیلاتی توانائی کی بھی ابیاری کر رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم صبر و تحمل کو خاموشی کا مترادف سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ زرخیز و داناذہن بھی خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ والسلام۔