جب بیوروکریسی اور فوج کے دو قابل افسران ملک کے طاقتور ترین شخص یعنی وزیراعظم کے ساتھ کام کریں تو بعض اوقات باہمی رقابت بھی آڑے آجاتی ہے۔
اعزاز سید کہتے ہیں کہ ایسا ہونا فطری بھی ہے۔ اس حوالے سے جب انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ ان کے دوسرے دورے حکومت یعنی 1997 سے 1999 تک کام کرنے والے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔
سعید مہدی کہتےہیں کہ میاں نوازشریف دوسرے دور حکومت میں وزیراعظم تعینات ہوئے تو مجھے پرنسپل سیکرٹری تعینات کرلیا۔ پرنسپل سیکرٹری چونکہ وزیراعظم کے تمام دفتری امور اور فائلوں کا کام سرانجام دیتا ہے اس لیے اکثر مجھ سے معمول کی بات چیت ہوتی تھی۔ دوسری طرف ملٹری سیکرٹری وزیراعظم کے تمام دوروں، ملاقاتوں، دعوتوں وغیرہ کے امور طے کرتا ہے اس لیے اس کا کام ہم سے الگ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے کام الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ہم اکٹھے ایک ہی جگہ یعنی وزیراعظم کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔‘
’میں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو وزیراعظم کے ساتھ پہلے سے تعینات ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر صباحت سے ابتدا میں میری کوئی بن نہ پائی۔ ایک روز وزیراعظم نے ریڈیو پاکستان کسی تقریب میں جانا تھا تو گاڑی میں بیٹھتے وقت مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے اور ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر صباحت کو دوسری گاڑی میں آنے کا حکم دیا۔ عام طورپر ملٹری سیکرٹری ہی وزیراعظم کے ساتھ باہر جاتے ہیں وہ دن ذرا معمول سے ہٹ کر تھا۔ گاڑی میں ہماری بات چیت ہوئی اور میں معمول کے مطابق واپس دفتر آگیا۔‘
’ملٹری سیکرٹری وزیراعظم کے ہمراہ تقریب مکمل کر کے واپس آ کر مجھ سے ملے اور کہا کہ جناب، ایسے نہیں چل سکتا۔ بولے ہمارے پاس وزیراعظم سے بات چیت کا موقع ہی یہ ہوتا ہے اس میں بھی آپ ان کے ساتھ جابیٹھتے ہیں۔ میں نے ملٹری سیکرٹری کو بتایا کہ مجھے وزیراعظم نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم وہ بولے کہ ایسا ہوتا رہا تو ہم اکٹھے کام نہیں کرسکتے۔‘
’ملٹری سیکرٹری کی یہ بات میں نے فوری وزیراعظم کے گوش گزاری تو انھوں نے مجھے کہا کہ آپ برا مت منائیں ویسے بھی ملٹری سیکرٹری اپنی مدت پوری کر کے جانے والے ہیں۔
تاہم میاں صاحب نے ملٹری سیکرٹری کو بلایا اور انھیں بتایا کہ سعید مہدی سے میں نے کوئی اہم بات کرنا تھی اسی لیے اسے گاڑی میں ساتھ بٹھایا۔ آپ اس بات کا برا نہ منائیں۔ وزیراعظم نے ہماری صلح صفائی کروائی اور ہم بغل گیر ہوگئے۔‘
سعید مہدی کے مطابق ’سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اور ملٹری سیکرٹری کے درمیان باہمی رقابت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کی۔ ایک کے پاس اختیارات تو دوسرے کے پاس وردی کی طاقت ہوتی ہے۔‘ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہوتے ہیں تو بعض معاملات میں رقیب بھی۔