فروغ نسیم ہمیں میاں بیوی کا بائیو لوجیکل ریلیشن شپ سمجھا رہے ہیں: جسٹس قاضی امین

10:18 AM, 12 Jun, 2020

اسد علی طور
آج 10 بج کر 35 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو بیرسٹر فروغ نسیم دلائل شروع کر چکے تھے۔ فروغ نسیم فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ سے اسلام کی رو سے میاں بیوی کے تعلق کی نوعیت کر رہے تھے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کا تعلق اتنا غیر معمولی ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے مداخلت کی کہ آپ ہمیں میاں بیوی کے بائلوجیکل ریلیشن شپ کا سمجھا رہے ہیں اور بہت خطرناک سمت پر جا رہے ہیں۔ مجھے ایک لمحے کو لگا شاید بیرسٹر فروغ نسیم کتاب بہشتی زیور سے اقتباسات پڑھ رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ مسٹر فروغ نسیم آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، پاکستان میں عورت کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ وہ خودمختار نہیں ہو سکتی یا خود سے اپنے لئے کوئی کما نہیں سکتی نہ ہی جائیداد لے سکتی ہے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر میں عوامی اعتماد کی بات کر رہا ہوں۔ وہ جج میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اس موقع پر دس رکنی فل کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ آپ نے کل کہا کہ جج کو سہولیات ملتی ہیں جج کی بیوی ان کو انجوائے کرتی ہے تو آپ کا پوائنٹ ہے کیا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہم میاں بیوی میں فرق نہیں کر سکتے کیونکہ افتخار چوہدری کیس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس بھی پبلک سرونٹ ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پبلک سرونٹ ہونے کی بنیاد پر جج بھی قابلِ احتساب ہوگا۔



گذشتہ روز کی کارروائی کا احوال: ’ایک منتخب حکومت ججز کے جاسوسی پر گھر بھیج دی گئی تھی‘







اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ کس نے کہا ہے کہ جج قابل احتساب نہیں ہے؟ ہم صرف کہہ رہے ہیں کہ جج کا احتساب کریں لیکن کسی قانون کے تحت۔ آپ ایف بی آر کا نوٹس جاری کرتے ہیں لیکن اس کی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کر لیتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ جج قابلِ احتساب ہے لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ جسٹس مقبول باقر نے بینچ کے دونوں اطراف سر گھما کر اپنے ساتھی ججوں سے اجازت چاہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھی ججوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ ہم بالکل قابلِ احتساب ہیں اور قانون کے تابع ہیں لیکن احتساب بھی قانون کے دائرے میں ہی ہوگا۔ آپ نے جج کی بیوی سے سوال کیا، انہیں نوٹس بھیجا لیکن پھر سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کر لیا۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریمارکس کا اختتام اس جملہ پر کیا کہ آپ ایک ہی مسئلے پر دو کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چلا سکتے، اس لئے براہِ مہربانی قانون کے ساتھ ذلت آمیز استعمال مت کریں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ ججز خود کو قابلِ احتساب نہیں سمجھتے اور اگر کسی نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے تو وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی توجہ گھڑی کی طرف دلاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے 15 منٹ گزار دیے ہیں، براہِ مہربانی ذرا توجہ مرکوز کر کے دلائل دیں کیونکہ پھر ہم نے نماز جمعہ کے لئے اٹھ جانا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں قرآن کے احکامات کی طرف واپس آؤں گا اور اس کا حوالہ فیڈرل شریعت کورٹ کے 2014 اور 2009 کے فیصلوں سے دوں گا اور پھر قانون شہادت کی شق پانچ پڑھوں گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اسلام کہتا ہے کہ میاں، بیوی ایک دوسرے کے بہت قریبی ہوتے ہیں اور اسلام ان پر لازم کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عزت اور مال کا تحفظ کریں۔



یہ بھی پڑھیے: ’ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی بدنیتی تھی یا نہیں؟‘ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس وینٹی لیٹر پر







جسٹس عمر عطا بندیال نے دستاویز پڑھتے ہوئے سر اٹھا کے کہا، یہ آپ کی دلیل ہے؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اب اس پر میں کیا کہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے آبزرویشن دی کہ آپ کی اگر یہ دلیل ہے تو یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں جائے گی کیونکہ قرآن بھی کہتا کہ تم ایک دوسرے کا پردہ رکھو۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر ہم تو صرف ان سے منی ٹریل مانگ رہے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم ایک اور قرآنی حوالہ دینے لگے تو جسٹس عمر بندیال نے سختی سے روک دیا کہ یہ اس بارے میں نہیں ہے جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں اس لئے مت پڑھیے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قرآن امانتوں کی بات کرتا ہے، براہِ مہربانی آپ پبلک سرونٹ اور جج کے دفتر پر بات کریں۔ اس موقع پر جسٹس قاضی محمد امین احمد نے اہم سوال پوچھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم، کیا آپ اسلام کے یہ اصول غیر مسلم ججوں پر بھی لاگو کریں گے؟ جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ ہماری عدلیہ میں غیر مسلم ججز بھی ہیں جو بہت قابل ہیں اور وہ چاہیں گے مزید غیر مسلم بھی عدلیہ کا حصہ بنیں، لیکن پھر کیا ہم ان کی جوابدہی بھی اسلامی اصولوں پر کریں گے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر ہم ہندوؤں کی مثال لے لیتے ہیں۔ ان میں تو بیوی ستی ہوتی ہے جو شوہر کے انتقال کی صورت میں ساتھ جلا دی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد اتنا چونکے کہ بے اختیار ان کی آواز بلند ہو گئی کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ اس غیر انسانی فعل کی حمایت کر رہے ہیں؟ بنچ کے دوسرے ججز بھی بیرسٹر فروغ نسیم کی اس دلیل پر ہکا بکا بیرسٹر فروغ نسیم کا منہ دیکھنے لگے جب کہ کمرہ عدالت میں سب نے سر گھما کر ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور کچھ نے سر پکڑ کر افسوس کے انداز میں سر نفی کے انداز میں ادھر ادھر ہلایا۔

اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے موضوع بدلتے ہوئے سوال پوچھا کہ اگر آپ جج سے سوال کرتے اور وہ جواب دینے سے انکار کرتے تو آپ اس کو ٹیکس قانون کی شق 116 سے نکل کر مس کنڈکٹ بنا لیتے لیکن یہاں تو آ نے جج سے سوال بھی نہیں کیا اور مس کنڈکٹ کا الزام لگا کر ریفرنس بھیج دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج منی ٹریل نہیں دیتا تو مس کنڈکٹ ہو گیا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پہلے جج کا ان جائیدادوں سے تعلق تو ثابت کریں پھر منی ٹریل مانگیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ بیوی سے تعلق کی بنیاد پر جج سے جواب مانگیں گے؟ جسٹس مقبول باقر نے ہنستے ہوئے لقمہ دیا کہ پاکستان میں اچھی خاصی پڑھی لکھی خواتین کو بھی اپنے شوہر کی دوسری شادی تک کا علم نہیں ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے فعل کے کیسے جوابدہ ہو گئے؟



یہ بھی پڑھیے: کیا عدالت کہہ سکتی ہے کہ جنابِ صدر آپ نے ہمیں غلط ریفرنس بھیجا، ججز کا فروغ نسیم سے سوال







بیرسٹر فروغ نسیم نے اب جبرالٹر کے چیف جسٹس کے کیس کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا جس میں جبرالٹر کے چیف جسٹس کی بیوی جو خود بھی وکیل تھی اور اس نے بار کی توہین کی تو چیف جسٹس کو عہدہ سے فارغ کر دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کے فعل کا ذمہ دار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ جبرالٹر کے چیف جسٹس کے کیس میں بیوی کا مس کنڈکٹ ثابت شدہ تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں تو بیوی کا مس کنڈکٹ بھی ابھی تک آپ ثابت نہیں کر سکے۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ آپ بہت قابل وکیل ہیں اور ہم آپ سے امید رکھتے ہیں کہ دلائل بھی آپ اپنی قابلیت کے معیار کے دیں گے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی تعریف سن کر خوشی سے جواب دیا کہ سر میں آپ تمام ججز کی بہت عزت اور تکریم کرتا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے فوراً مسکرا کر طنز کیا کہ پھر مہربانی کر کے ہماری عزت کو ناکام طریقے سے پامال مت کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ یہ بتائیں مس کنڈکٹ کہاں ہوا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایک جج کو بیوی کے بار کو نوٹس بھیجنے پر نکال دیا گیا، یہاں تو بیوی کے نام پر ملین پاونڈ کی جائیدادیں ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بھارتی عدالت کے فیصلے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک بھارتی جج نے بھی اپنے خلاف کارروائی رکوانے کی کوشش کی تھی کیونکہ ان کی جائیدادوں کی بیوی بے نامی دار نکلی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھارتی جج کے خلاف تحقیقات میں ثابت ہو چکا تھا کہ بیوی بے نامی دار ہے کیا آپ نے اس کیس میں تحقیقات میں ثابت کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ بے نامی دار ہیں؟

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ایف بی آر ثابت تو کر لیتی کہ جج بے نامی دار ہے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے آپ بیوی کو بے نامی دار ثابت کرتے پھر سپریم جوڈیشل کونسل آتے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر جج سے سوال کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے اس لئے ان سے کہا کہ آپ ہی پوچھ لیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ آپ 116 کے ایف بی آر کے نوٹس کی کارروائی مکمل ہونے دیتے ریفرنس دائر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مس کنڈکٹ ایک مختلف معاملہ ہے جس کے خلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے۔



یہ بھی پڑھیے: ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے؟ مواد غیرقانونی طور پر اکٹھا کیا گیا؟ ججز کے فروغ نسیم سے سوالات







جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دی کہ نہیں، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ پہلے ایف بی آر کی کارروائی بنتی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ آپ غیر ظاہر شدہ اثاثوں پر کیا کہیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہمارا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمدن سے خریدے جا سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کا وقت ختم ہونے کا کہا تو جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ کے سربراہ سے ایک سوال کی اجازت چاہی۔ جسٹس عمر عطا بندیال سے اجازت ملنے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے پوچھا کہ آپ نے کہا تھا برطانوی نظام میں آپ آن لائن جا کر کسی بھی شخص کا نام ڈالیں تو جائیداد کی تفصیلات آ جاتی ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے اور میں نے اس کا تحریری خاکہ بھی جمع کروا رکھا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ میں نے وہ دیکھا ہے اور تبھی کہہ رہا ہوں کہ وہ غلط ہے۔ جب تک آپ جائیداد کا پتہ نہیں ڈالیں گے اس کے مالک کا نام نہیں آئے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس بہت اہم تھے۔ وہ اشارہ دے رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جاسوسی کی گئی ہے اور ان کی نگرانی کر کے ان کے گھر کے ایڈریس معلوم کیے گئے جو کم از کم شکایت کنندہ وحید ڈوگر کے لئے پاکستان میں بیٹھ کر ممکن نہ تھا۔ اس مکالمے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کو سوموار تک ملتوی کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت دی کہ ہماری عدالتی چھٹیاں سوموار سے شروع ہو رہی ہیں لیکن میرے ساتھی ججز نے بہت مہربانی کی ہے کہ وہ عدالتی چھٹیوں کے دوران وڈیو لنک پر بھی سماعت کے لئے موجود ہوں گے۔ فل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ ایک دن پہلے اپنے دلائل کی دستاویزات سپریم کورٹ پہنچا دیں تاکہ وہ ججز کو گھر پہنچائی جا سکیں کیونکہ یہ ہمارا یوں سماعت کا پہلا تجربہ ہوگا۔

مزیدخبریں